سنن ترمذي
كتاب السير عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
24. باب فِي كَرَاهِيَةِ هَدَايَا الْمُشْرِكِينَ
باب: کفار و مشرکین سے ہدیہ تحفہ قبول کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1577
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ ابْنُ الشِّخِّيرِ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ حِمَارٍ، أَنَّهُ أَهْدَى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَدِيَّةً لَهُ أَوْ نَاقَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْلَمْتَ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " إِنِّي نُهِيتُ عَنْ زَبْدِ الْمُشْرِكِينَ "، يَعْنِي: هَدَايَاهُمْ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقْبَلُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ هَدَايَاهُمْ، وَذُكِرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْكَرَاهِيَةُ، وَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ هَذَا بَعْدَ مَا كَانَ يَقْبَلُ مِنْهُمْ، ثُمَّ نَهَى عَنْ هَدَايَاهُمْ.
عیاض بن حمار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحفہ دیا یا اونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اسلام لا چکے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: مجھے تو مشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إني نهيت عن زبد المشركين» کا مطلب یہ ہے کہ مجھے ان کے تحفوں سے منع کیا گیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ مشرکوں کے تحفے قبول فرماتے تھے، جب کہ اس حدیث میں کراہت کا بیان ہے، احتمال ہے کہ یہ بعد کا عمل ہے، آپ پہلے ان کے تحفے قبول فرماتے تھے، پھر آپ نے اس سے منع فرما دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الخراج والإمارة 35 (3057)، (تحفة الأشراف: 11015)، و مسند احمد (4/162) (حسن صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے، لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیا جا سکتا ہے، چنانچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔ «واللہ اعلم»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح التعليق على الروضة الندية (2 / 164)
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1577  
´کفار و مشرکین سے ہدیہ تحفہ قبول کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عیاض بن حمار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے (اسلام لانے سے قبل) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تحفہ دیا یا اونٹنی ہدیہ کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم اسلام لا چکے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: مجھے تو مشرکوں کے تحفہ سے منع کیا گیا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1577]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرکین کا ہدیہ قبول نہ کرنا ہی اصل ہے،
لیکن کسی خاص یا عام مصلحت کی خاطر اسے قبول کیاجا سکتا ہے،
چنانچہ بعض علماء نے قبول کرنے اور نہ کرنے کی حدیثوں کے مابین تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ جو لوگ دوستی اور موالاۃ کی خاطر ہدیہ دینا چاہتے تھے آپ نے ان کے ہدیہ کو قبول نہیں کیا اور جن کے دلوں میں اسلام اور اس کے ماننے والوں کے متعلق انسیت دیکھی گئی تو ان کے ہدایا قبول کیے گئے۔
(واللہ اعلم)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1577   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3057  
´امام کا کفار و مشرکین سے ہدیہ قبول کرنا۔`
عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اونٹنی ہدیہ میں دی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم مسلمان ہو گئے ہو؟ میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے مشرکوں سے تحفہ لینے کی ممانعت کر دی گئی ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3057]
فوائد ومسائل:
چونکہ ہدیہ لینا دینا دلوں میں قربت اورمحبت پیدا کرتا ہے۔
اس لئے کافروں اور مشرکوں سے آذادانہ طور پر ہدیہ کے تبادلے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
تاہم جہاں کوئی شرعی اور سیاسی مصلحت ہو تو ہدیہ لینے میں کوئ حرج نہیں۔
مثلاکوئی کافرمسلمانوں کےلئے اپنے خضوع کا اظہار کرنا چاہتا ہو یا امید ہو کہ اس کے ساتھ موانست سے وہ اسلام کے قریب ہوگا۔
یا اسلام لے آئے گا وغیرہ۔
امام بخاری نے صحیح بخاری کتاب لہبہ باب قبول الہدیہ من المشرکین اور باب الہدیۃ للمشرکین میں یہی ثابت کیا ہے۔

حضرت عیاض بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہدیہ قبول نہ کرنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ انہیں اسلام لانے پر ابھارنا مقصود تھا۔
آپﷺ نے اکیدر دومہ اورنجاشی کا ہدیہ قبول کیاہے۔
کیونکہ ان کے ایمان لانے کی قوی امید تھی۔

حضرت عیاض بن حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔
اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3057