سنن ترمذي
كتاب اللباس -- کتاب: لباس کے احکام و مسائل
6. باب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ الْفِرَاءِ
باب: چمڑے کا لباس (پوستین) پہننے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1726
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، فَقَالَ: " الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ الْمُغِيرَةِ، وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى سُفْيَانُ، وَغَيْرُهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ، وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ، مَوْقُوفًا، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ، وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ.
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں،
۲- اسے سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفاً روایت کیا ہے، گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے، اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتا ہوں، سفیان نے بسند «سليمان التيمي عن أبي عثمان عن سلمان» موقوفا روایت کی ہے،
۴- امام بخاری کہتے ہیں: سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں، اور سیف بن محمد عاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأطعمة 60 (3367)، (تحفة الأشراف: 4496) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں، دیکھئے: غایة المرام رقم: 3، وتراجع الألبانی 428)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے «هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا» لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیونکہ حرمت کی دلیل آ جانے کے بعد وہ حرام ہو جائیں گی، فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان، تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیونکہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرر رساں نہ ہوں، اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی، اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر و نقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں، نیز ان کا استعمال «تبذیر» (اسراف اور فضول خرچی) کے باب میں آتا ہے، لہٰذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3366)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3367  
´پنیر اور گھی کھانے کا بیان۔`
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3367]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فراء کے دومعنی ہیں:

(الف)
فرو کی جمع یعنی پوستین یا کھال سے بنا ہوا لباس۔

(ب)
فرأ جمع یعنی حمار و حشی (گورخر)
یہاں دونوں مطلب صحیح ہو سکتے ہیں۔ (گورخر کی وضاحت کے لیے دیکھیے حدیث: 3090 کا فائدہ نمبر 1)

(2)
اللہ کی کتاب سے مراد اللہ کا قانون ہے جس میں قرآن اور حدیث دونوں شامل ہیں۔

(3)
جن چیزوں کےبارے میں حرمت کی صراحت نہ ہو بلکہ حرمت کا اشارہ ملتا ہو وہ بھی حرام ہیں مثلاً:
وہ جانور جنہیں مار ڈالنےکا حکم ہے۔ (دیکھیے حدیث: 3087)
یا جنہیں قتل کرنے سےمنع کیاگیا ہے۔ (دیکھیے حدیث: 3223)

(4)
جن چیزوں میں حرمت کا کوئی سبب نہ پایا جائے وہ حلال ہیں خواہ ان کاذکر قرآن وحدیث میں آیا ہو نا نہ آیا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3367   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1726  
´چمڑے کا لباس (پوستین) پہننے کا بیان۔`
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین (چمڑے کا لباس) کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کر دیا، اور حرام وہ ہے، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کر دیا اور جس چیز کے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کر دیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1726]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے،
یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں،
اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً﴾ لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو،
کیوں کہ حرمت کی دلیل آجانے کے بعد وہ حرام ہوجائیں گی،
فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان،
تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے،
لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے،
کیوں کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں،
لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرررساں نہ ہوں،
اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی،
اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر ونقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں،
نیز ان کا استعمال تبذیر (اسراف اورفضول خرچی) کے باب میں آتا ہے،
لہٰذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔

نوٹ:
(شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے،
ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں،
دیکھئے:
غایۃ المرام رقم: 3،
وتراجع الألبانی 428)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1726