سنن ترمذي
كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
13. باب مَا جَاءَ فِي النَّفَقَةِ عَلَى الْبَنَاتِ وَالأَخَوَاتِ
باب: لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1913
حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ مَسْلَمَةَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ ابْتُلِيَ بِشَيْءٍ مِنَ الْبَنَاتِ فَصَبَرَ عَلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ حِجَابًا مِنَ النَّارِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لڑکیوں کی پرورش سے دوچار ہو، پھر ان کی پرورش سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کرے تو یہ سب لڑکیاں اس کے لیے جہنم سے آڑ بنیں گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 10 (1418)، والأدب 18 (5995)، صحیح مسلم/البر والصلة 46 (2629)، کلاہما مع ذکر القصة المشھورة في رقم 1915، و مسند احمد (6/33، 88، 166، 243)، ویأتي عند المؤلف برقم 1915 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1915  
´لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، اس نے (کھانے کے لیے) کوئی چیز مانگی مگر میرے پاس سے ایک کھجور کے سوا اسے کچھ نہیں ملا، چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجور کو خود نہ کھا کر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیا اور اٹھ کر چلی گئی، پھر میرے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا: جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دو چار ہو اس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1915]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے تین کھجوریں دی تھیں،
دوکھجوریں اس نے ان دونوں بچیوں کو دے دیں اور ایک کھجور خود کھانا چاہتی تھی،
لیکن بچیوں کی خواہش پر آدھا آدھا کرکے اسے بھی ان کو دے دیا،
جس پر عائشہ رضی اللہ عنہا کو بڑا تعجب ہوا،
ان دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے انہیں ایک کھجور دی،
پھر بعد میں جب دوکھجوریں اور مل گئیں تو انہیں بھی اس کے حوالہ کردیا،
یا یہ کہا جائے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1915