سنن ترمذي
كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
34. باب مَا جَاءَ فِي قَبُولِ الْهَدِيَّةِ وَالْمُكَافَأَةِ عَلَيْهَا
باب: ہدیہ قبول کرنے اور اس کا بدلہ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1953
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَيُثِيبُ عَلَيْهَا "، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِيسَى بْنِ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن غریب صحیح ہے،
۲- ہم اسے صرف عیسیٰ بن یونس کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ ہشام سے روایت کرتے ہیں،
۳- اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الہبة 11 (2585)، سنن ابی داود/ البیوع 82 (3537) (تحفة الأشراف: 17133) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1603)
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 791  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ و تحفہ قبول فرما لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کچھ عنایت بھی فرمایا کرتے تھے۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 791»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب المكافأة في الهبة، حديث:2585.»
تشریح:
1. تحفہ قبول کرنا اور اس کا بدلہ دینا سنت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے‘ بلکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ آپ ہدیہ و تحفہ کا بدلہ بہتر صورت میں ادا فرمایا کرتے تھے۔
(المصنف لابن أبي شیبۃ:۶ /۵۵۱) 2. ہدیے کا بدلہ دینے کی گنجائش نہ ہو تو کم از کم ہدیہ دینے والے کو جَزَاکَ اللّٰہُ خَیْرًا کی دعا کا تحفہ ضرور دینا چاہیے۔
3.کسی نے دوسرے کو تحفہ اس نیت و خیال سے دیا کہ وہ بھی ضرور تحفہ دے تو امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ باطل ہے اور دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 791   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3536  
´ہدیہ اور تحفہ قبول کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے، اور اس کا بدلہ دیتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3536]
فوائد ومسائل:
مسنون اور مستحب ہے۔
کہ انسان ہدیے کا معقول بدل دیا کرے۔
اس سے طرفین میں محبت بڑھتی ہے۔
اگر مالی طور پر کچھ نہ دے سکے۔
تو بہت زیادہ شکریہ ادا کرے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4811۔
ومابعد)
اور حدیث میں یہ بھی ہے۔
جس نے اپنے محسن کو (جزاك اللہ خیرا) کہہ دیا تو اس نے اس کی بہت تعریف کی (جامع الترمذي، البر والصلة، حدیث: 2035) ہدیہ (عطیہ) اور ہبہ میں یہ فرق ہے کہ ہدیہ دینے والا۔
اس شخص کے قریب ہونا چاہتا ہے۔
جس کو وہ ہدیہ دیتا ہے جب کہ ہبہ میں یہ غرض نہیں ہوتی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3536