Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب الطب عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
کتاب: طب (علاج و معالجہ) کے احکام و مسائل
24. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّعْلِيقِ
باب: تعویذ گنڈا لٹکانے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2072
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عِيسَى أَخِيهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ أَبِي مَعْبَدِ الْجُهَنِيِّ أَعُودُهُ وَبِهِ حُمْرَةٌ، فَقُلْنَا: أَلَا تُعَلِّقُ شَيْئًا، قَالَ: الْمَوْتُ أَقْرَبُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُكَيْمٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُكَيْمٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: كَتَبَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
عیسیٰ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عکیم ابومعبد جہنی کے ہاں ان کی عیادت کرنے گیا، ان کو «حمرة» کا مرض تھا ۱؎ ہم نے کہا: کوئی تعویذ وغیرہ کیوں نہیں لٹکا لیتے ہیں؟ انہوں نے کہا: موت اس سے زیادہ قریب ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کر دیا گیا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
عبداللہ بن عکیم کی حدیث کو ہم صرف محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کی روایت سے جانتے ہیں، عبداللہ بن عکیم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نہیں سنی ہے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے، وہ کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کے پاس لکھ کر بھیجا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6643) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «حمرہ» ایک قسم کا وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے بخار آتا ہے، اور بدن پر سرخ دانے پڑ جاتے ہیں۔
۲؎: جو چیزیں کتاب و سنت سے ثابت نہیں ہیں وہ حرام ہیں، چنانچہ تعویذ گنڈا اور جادو منتر وغیرہ اسی طرح حرام کے قبیل سے ہیں، تعویذ میں آیات قرآنی کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی، کیونکہ حدیث میں مطلق لٹکانے کو ناپسند کیا گیا ہے، یہ حکم عام ہے اس کے لیے کوئی دوسری چیز مخص نہیں ہے۔ بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کوئی تعویذ، گنڈا یا کوئی منکا وغیرہ لٹکایا اُس نے شرک کیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن غاية المرام (297)

قال الشيخ زبير على زئي: (2072) إسناده ضعيف
محمد بن عبدالرحمن بن أبى ليلي: ضعيف (تقدم:194) وللحديث شاھد ضعيف عند النسائي (112/7 ح4084)

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 2072 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن ترمذی 2072  
جو آدمی کوئی چیز لٹکائے گا وہ اسی کے سپرد کیا جائے گا
سوال: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِّلَ إِلَيْهِ .» [مسند احمد 4/ 310 مستدرك حاكم 4/ 215] اس حدیث کی تحقیق مطلو ب ہے۔
الجواب:
اس روایت: «مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِّلَ إِلَيْهِ .»
جس نے کوئی چیز لٹکائی (مثلاًً منکا) تو وہ اسی کے سپرد کر دیا جاتا ہے کو حاکم [4/ 216 ح 7503] ابن ابی شیبہ [7/ 371 ح 23447] اور بیہقی [9/ 351] وغیرہم نے «مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ أَبِيْ لَيْلَي، عَنْ أَخِيهِ عِيسَي بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِيْ لَيْلَي عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُكَيْمٍ .» کی سند سے بیان کیا ہے۔
محمد بن ابی لیلیٰ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف راوی ہے۔
بوصیری نے کہا:
«ضعفه الجمهور»
اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ [مصباح الزجاجة فى زوائد ابن ماجة: 854]
طبرانی نے «محمد ابن أبى ليليٰ عن عيسٰي؟؟؟؟ عن أبى معبد الجهني» کی سند سے یہی روایت بیان کی۔ [المعجم الكبير 22/ 385 ح 960]
ابومعبد الجہنی عبداللہ بن عکیم ہیں اور محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہے۔
اس کی تائیدی روایات (شواہد) درج ذیل ہیں:
پہلا شاہد:
«عَبَّادُ بْنُ مَيْسَرَةَ الْمِنْقَرِيُّ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه .» [السنن المجتبيٰ للنسائي 7/ 112 ح 4084، والسنن الكبريٰ للنسائي: 3542، الكامل لابن عدي 4/ 1648]
یہ روایت دو وجہ سے ضعیف ہے:
اول:
حسن بصری نے اس روایت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی۔
حسن بصری تدلیس کرتے تھے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب 1227 وطبقات المدلسين 40/2]
دوم:
عباد بن میسرہ: «لين الحديث» (ضعیف) عابد ہے۔ دیکھئے: [تقريب التهذيب: 3149]
دوسرا شاہد:
«مُبَارَكُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنه . إلخ» [صحيح ابن حبان، الاحسان: 6053 دوسرانسخه: 6085]
حسن بصری کی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح موجود نہیں ہے۔
ایک روایت میں تصریح آئی ہے۔ [مسند احمد 4/ 445]
لیکن اس سند میں مبارک بن فضالہ مدلس ہے اور اس کے سماع کی تصریح نہیں ہے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔
تیسرا شاہد:
«مِشْرَحَ بْنَ هَاعَانَ عَنْ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ رضى الله عنه عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ تَعَلَّقَ تَمِيْمَةً فَلَا أَتَمَّ اللهُ لَهٗ، وَمَنْ تَعَلَّقَ وَدْعَةً فَلَا وَدَّعَ اللهُ لَه .»
جو شخص کوئی «تميمه» (منکا) لٹکائے تو اللہ اسے اُس کے لیے پور انہ کرے اور جو «ودعه» (سفید دھاگا) لٹکائے تو اللہ اسے سکون میں نہ رکھے۔
[مسند احمد4/ 154 ح 17404 وسنده حسن، صحيح ابن حبان، الاحسان: 6054 دوسرانسخه: 6086، المستدرك 4/ 216 وصححه ووافقه الذهبي]
اس روایت کی سند حسن ہے۔
خالد بن عبید کو ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح الحدیث قرار دیا ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث ِمسؤل بلحاظِ سند صحیح نہیں ہے۔
ابومجلز لاحق بن حمید (تابعی) نے فرمایا:
«مَنْ تَعَلَّقَ عَلَاقَةً وُكِّلَ إِلَيْهَا .»
جو آدمی کوئی چیز لٹکائے گا وہ اسی کے سپرد کیا جائے گا۔ [مصنف ابن بي شيبه 7/ 374 ح 23456 وسنده صحيح]
. . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . .
ماہنامہ الحدیث شمارہ 27 ص 15
   ماہنامہ الحدیث حضرو، حدیث/صفحہ نمبر: 999   

  الشیخ اسحاق سلفی رحمه الله، فوائد و مسائل،سنن ترمذی 2072  
اسی کے سپرد کا مطلب
حدیث میں موجود جملہ (اسی کے سپرد کر دیا گیا) کا مطلب ہے کہ اس نے کاغذ کے لکھے پر اعتماد کیا تو اللہ تعالی اپنی عطا اس سے روک کر اسے اسی تعویذ کے حوالے کر دیتا ہے، کہ جا اب اسی تعویذ سے لینا، اور ظاہر ہے کہ کاغذ کے ٹکڑے کسی کو شفاء نہیں دے سکتے لہذا وہ شفاء سے محروم رہے گا،
علامہ عبد الرؤف المناوی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: «(وكل إليه) أى وكل الله شفاءه إلى ذلك الشيء فلا يحصل شفاؤه .» اور اسی معنی کی دوسری حدیث ہے: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تعلق تميمة فلا أتم الله له» جس نے تمیمہ لٹکایا تو اللہ اس کی مراد پوری نہ کرے گا۔ [أخرجه الإمام أحمد فى مسند الشاميين برقم 16781]
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 999   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2072  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حمرہ ایک قسم کا وبائی مرض ہے جس کی وجہ سے بخار آتا ہے،
اوربدن پر سرخ دانے پڑجاتے ہیں۔

2؎:
جوچیزیں کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہیں وہ حرام ہیں،
چنانچہ تعویذ گنڈا اور جادو منتر وغیرہ اسی طرح حرام کے قبیل سے ہیں،
تعویذ میں آیات قرآنی کا ہونا اس کے جواز کی دلیل نہیں بن سکتی،
کیوں کہ حدیث میں مطلق لٹکانے کو ناپسندکیاگیا ہے،
یہ حکم عام ہے اس کے لیے کوئی دوسری چیز مخصص نہیں ہے۔
بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا:
جس نے کوئی تعویذ،
گنڈا یا کوئی منکا وغیرہ لٹکایا اُس نے شرک کیا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2072