سنن ترمذي
كتاب الفرائض عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
3. باب مَا جَاءَ فِي مِيرَاثِ الْبَنَاتِ
باب: لڑکیوں کی میراث کا بیان۔
حدیث نمبر: 2092
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ، قَالَ: " يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ "، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا، فَقَالَ: " أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، وَقَدْ رَوَاهُ شَرِيكٌ أَيْضًا عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کو جو سعد سے پیدا ہوئی تھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کے باپ آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے، اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اور بغیر مال کے ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا، چنانچہ اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (لڑکیوں) کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو مال کا دو تہائی حصہ دے دو اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ، اور جو بچے وہ تمہارا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ہم اسے صرف عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- عبداللہ بن محمد بن عقیل سے شریک نے بھی یہ حدیث روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الفرائض 4 (2891)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 2 (2720) (تحفة الأشراف: 2365) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: کل ترکہ ۲۴ حصے فرض کریں گے جن میں سے: کل وراثت میں سے بیٹیوں کا ۲/۳ (دو تہائی) =۱۶ حصے، مرنے والے کی بیوی کا ۱/۸ (آٹھواں حصہ) = ۳ حصے اور باقی بھائی کا =۵ حصے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (2720)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2720  
´(میراث میں) اولاد کے حصوں کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی ان کی دونوں بیٹیوں کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں، جو آپ کے ساتھ غزوہ احد میں تھے اور شہید ہو گئے، ان کے چچا نے ان کی ساری میراث پر قبضہ کر لیا (اب ان بچیوں کی شادی کا معاملہ ہے) اور عورت سے مال کے بغیر کوئی شادی نہیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ میراث والی آیت نازل ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بھائی کو طلب کیا اور فرمایا: سعد کی دونوں بیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2720]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
محققین کی تفصیلی بحث سے تحسین حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصوا ب معلوم ہوتی ہے، لہذا مذکورہ روایت اس سند سے ضعیف ہونے کے باوجود شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے، مزید تفصیل کےلیے دیکھئے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الامام احمد بن حنبل: 23؍108، 109، وصحیح سنن ابی داؤد للالبانی، رقم: 2573، 2574)
شریعت نے بعض وارثوں کےلیے ترکے میں ایک خاص حصہ مقرر کیا ہے، ایسے وارثوں کو اصحاب الفروض کہتے ہیں۔
اصحاب الفروض کو حصے دینے کے بعد جو ترکہ بچے وہ جن رشتہ داروں کو ملتا ہے انہیں عصبہ کہتے ہیں۔

(3)
اگر کسی کی ایک ہی بیٹی ہو تو اسے کل ترکے کا نصف حصہ ملے گا۔
اگر ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو انہیں کل مال کے تین حصے کرکے ان میں دو حصے دیے جائیں گے۔ (دیکھئے: سورۃ النساء، آیت: 11)
اگر میت کے وارث بیٹے بھی ہوں اور بیٹیاں بھی تو ان کی تعداد کے مطابق ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا۔ (حواله مذکورہ بالا)

(5)
اگر مرنے والے کی اولاد نہ ہو تو ا س کی بیوی کو کل ترکے کا چوتھا حصہ دیا جائے گا اور اگر میت کی اولاد ہوجیسے کہ حدیث میں مذکورہ واقعے میں ہے تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔
اگرایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو یہی چوتھا یا آٹھواں حصہ ان سب میں تقسیم کیا جائے گا۔
6 میت کا بھائی عصبہ ہے، اس لیے اصحاب الفروض(بیوی اور بیٹیوں)
کو دے کر جو کچھ باقی بچا، وہ اسے دیا گیا۔ 7۔
حدیث میں مذکورہ واقعے میں کل مال کے چو بیس حصے کیے گئے جن میں سے تین حصے (کل مال کا آٹھواں حصہ)
بیوہ کو ملے اور سولہ حصے (کل مال کی دو تہائی)
دونوں بیٹیوں کو (ہر بیٹی کو آٹھ حصے)
ملے، باقی پانچ حصے بچے، وہ بھائی کو مل گئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2720   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2092  
´لڑکیوں کی میراث کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع کی بیوی اپنی دو بیٹیوں کو جو سعد سے پیدا ہوئی تھیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد بن ربیع کی بیٹیاں ہیں، ان کے باپ آپ کے ساتھ لڑتے ہوئے جنگ احد میں شہید ہو گئے ہیں، ان کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے، اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا، اور بغیر مال کے ان کی شادی نہیں ہو گی۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں فیصلہ کرے گا، چنانچہ اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (لڑکیوں) کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفرائض/حدیث: 2092]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
کل ترکہ 24حصے فرض کریں گے جن میں سے:
کل وراثت میں سے بیٹیوں کا 2/3(دوتہائی) =16 حصے،
مرنے و الے کی بیوی کا 1/8 (آٹھواں حصہ)= 3 حصے اور باقی بھائی کا = 5 حصے
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2092