سنن ترمذي
كتاب الفرائض عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
8. باب فِي مِيرَاثِ الْعَصَبَةِ
باب: عصبہ کی میراث کا بیان۔
حدیث نمبر: 2098
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی جانب سے متعین میراث کے حصوں کو حصہ داروں تک پہنچا دو، پھر اس کے بعد جو بچے وہ میت کے قریبی مرد رشتہ دار کا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفرائض 5 (6732)، صحیح مسلم/الفرائض 1 (1615)، سنن ابی داود/ الفرائض 7 (2898)، سنن ابن ماجہ/الفرائض 10 (2740) (تحفة الأشراف: 5705)، و مسند احمد (1/298)، وسنن الدارمی/الفرائض 28 (2030) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: «عصبہ» وہ رشتہ دار جو باپ کی جانب سے ہوں، شرعی اصطلاح میں «عصبہ» ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو میت کی میراث میں سے متعین حصہ کے بغیر وارث ہوں۔ یعنی: «ذوی الفروض» کو دینے کے بعد جو بچ جائے اس کے وہ وارث ہوتے ہیں، جیسے بیٹا، بیٹا نہ ہونے کی صورت میں کبھی باپ، کبھی پوتا، کبھی دادا، کبھی چچا اور بھتیجا وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2740)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2740  
´عصبہ کی میراث کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مال کو اللہ کی کتاب (قرآن) کے مطابق ذوی الفروض (میراث کے حصہ داروں) میں تقسیم کرو، پھر جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کا ہو گا جو میت کا زیادہ قریبی ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اصحاب الفروض سے مراد وہ وارث ہیں جن کے حصے قرآن مجید اور حدیث شریف میں مقرر کردیے گئے ہیں۔
یہ بارہ افراد ہیں جن میں چار مرد ہیں اور آٹھ عورتیں ہیں۔
ان کی تفصیل حدیث: 2737 کے ذیل میں گزر چکی ہے۔

(2)
  مندرجہ بالا افراد میں سے بعض افراد ایک حالت میں اصحاب الفروض میں شامل ہوتے ہیں اور ایک حالت میں عصبہ بن جاتے ہیں، مثلاً:
ایک بیٹی یا ایک سے زیادہ بیٹیاں اس وقت اصحاب الفروض میں شامل ہیں جب میت کا کوئی بیٹا موجود نہ ہو، اگر بیٹا موجود ہو تو بیٹی یا بیٹیاں عصبہ بن جاتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2740   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2898  
´عصبہ کی میراث کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوی الفروض ۱؎ میں مال کتاب اللہ کے مطابق تقسیم کر دو اور جو ان کے حصوں سے بچ رہے وہ اس مرد کو ملے گا جو میت سے سب سے زیادہ قریب ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2898]
فوائد ومسائل:
شریعت نے جن کے حصے مقرر کردیئے ہیں۔
انہیں اصحاب الفروض اور اہل الفرض کہتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2898   
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنِ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُرْسَلًا.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ ۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث «عن ابن طاووس عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے مرسل طریقہ سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2740)