سنن ترمذي
كتاب الوصايا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
2. باب مَا جَاءَ فِي الضِّرَارِ فِي الْوَصِيَّةِ
باب: وصیت کرنے میں ورثاء کو نقصان نہ پہنچانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2117
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ جَدُّ هَذَا النَّضْرِ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ بْنُ جَابِرٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ وَالْمَرْأَةُ بِطَاعَةِ اللَّهِ سِتِّينَ سَنَةً، ثُمَّ يَحْضُرُهُمَا الْمَوْتُ فَيُضَارَّانِ فِي الْوَصِيَّةِ فَتَجِبُ لَهُمَا النَّارُ "، ثُمَّ قَرَأَ عَلَيَّ أَبُو هُرَيْرَةَ: مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ سورة النساء آية 12 ـ 13، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الَّذِي رَوَى عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ جَابِرٍ هُوَ جَدُّ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں ۱؎، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے، پھر ابوہریرہ نے «من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار وصية من الله» سے «ذلك الفوز العظيم» ۲؎ تک آیت پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- نصر بن علی جنہوں نے اشعث بن جابر سے روایت کی ہے وہ نصر بن علی جہضمی کے دادا ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الوصایا 3 (2867)، سنن ابن ماجہ/الوصایا 3 (2734) (تحفة الأشراف: 13495) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت: ۱؎: نقصان پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کر دی یا ورثاء میں سے کسی ایک کو سارا مال ہبہ کر دیا یا وصیت سے پہلے وہ جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر دوسروں کا قرض ثابت کرے، ظاہر ہے ان تمام صورتوں میں ورثاء نقصان سے دوچار ہوں گے، اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے۔
۲؎: اس وصیت کے بعد جو تم کر گئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقرر کیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار ہے، یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے (النساء: ۱۲-۱۳)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (2704) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (591) ، المشكاة (3075) ، ضعيف الجامع الصغير (1457) ، ضعيف أبي داود (614 / 2867) //
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2117  
´وصیت کرنے میں ورثاء کو نقصان نہ پہنچانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کرتے ہیں پھر ان کی موت کا وقت آتا ہے اور وہ وصیت کرنے میں (ورثاء کو) نقصان پہنچاتے ہیں ۱؎، جس کی وجہ سے ان دونوں کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے، پھر ابوہریرہ نے «من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار وصية من الله» سے «ذلك الفوز العظيم» ۲؎ تک آیت پڑھی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الوصايا/حدیث: 2117]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
نقصان پہنچانے کی صورت یہ ہے کہ تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کردی یا ورثاء میں سے کسی ایک کو سارا مال ہبہ کردیا یا وصیت سے پہلے وہ جھوٹ کا سہارا لے کر اپنے اوپر دوسروں کا قرض ثابت کرے،
ظاہر ہے ان تمام صورتوں میں ورثاء نقصان سے دوچار ہوں گے،
اس لیے اس کی سزا بھی سخت ہے۔

2؎:
اس وصیت کے بعد جو تم کرگئے ہو اور قرض کی ادائیگی کے بعد جب کہ اوروں کا نقصان نہ کیا گیا ہو یہ مقررکیا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،
اور اللہ تعالیٰ دانا ہے بردبار ہے،
یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرما نبرداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا،
جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
(النساء: 12-13)
نوٹ:

(سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2117   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2867  
´وصیت سے (ورثہ کو) نقصان پہنچانے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مرد اور عورت دونوں ساٹھ برس تک اللہ کی اطاعت کے کام میں لگے رہتے ہیں، پھر جب انہیں موت آنے لگتی ہے، تو وہ غلط وصیت کر کے وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں (کسی کو محروم کر دیتے ہیں، کسی کا حق کم کر دیتے ہیں) تو ان کے لیے جہنم واجب ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏ شہر بن حوشب کہتے ہیں: اس موقع پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ «من بعد وصية يوصى بها أو دين غير مضار» پڑھی یہاں تک کہ «ذلك الفوز العظيم» پر پہنچے۔ یعنی (اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ اوروں کا ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2867]
فوائد ومسائل:
معنی واضح ہیں کہ وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچانا گناہ کبیرہ اور اللہ کی حدود سے تجاوز ہے۔
اور ایسی وصیت جائز نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2867