صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
62. بَابُ جِهَادِ النِّسَاءِ:
باب: عورتوں کا جہاد کیا ہے۔
حدیث نمبر: 2875
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: جِهَادُكُنَّ الْحَجُّ، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بِهَذَا، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بِهَذَا.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں معاویہ ابن اسحاق نے، انہیں عائشہ بنت طلحہ نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا جہاد حج ہے۔ اور عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا اور ان سے معاویہ نے یہی حدیث نقل کی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2901  
´حج عورتوں کا جہاد ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، لیکن ان پر ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ہے اور وہ حج اور عمرہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2901]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہاد قتال عورتوں پر فرض نہیں۔

(2)
عورتوں کے لیے حج اور عمرے کی اتنی اہمیت ہے جتنی مردوں کے لیے جہاد کی۔

(3)
حج وعمرہ کو عورتوں کا جہاد اس لیے قرار دیا گیا ہے کہ اس میں بھی اللہ کی رضا کے لیے سفر کی مشقت برداشت کی جاتی ہے مال خرچ کیا جاتا ہے اور کئی طرح کی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2901   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 580  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! کیا عورتوں پر جہاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ان پر وہ جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں (یعنی) حج اور عمرہ۔ اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔ [بلوغ المرام/حدیث: 580]
580 لغوی تشریح:
«عَلَي النَّسَاءِ جِهَادٌ» کیا عورتوں پر جہاد ہے؟
اس میں حرف استفہام محذوف ہے اور حج و عمرہ پر جہاد کا اطلاق مجازاً ہے کیونکہ ان میں بھی جہاد کی طرح مشقت و تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ آپ نے بڑے حکیمانہ اسلوب میں جواب دیا۔
«وَاَصَلُهُ فِي الصَّحِيحِ» اس کی اصل صحیح میں ہے۔ صحیح سے یہاں صحیح بخاری مراد ہے۔ یہ حدیث عمرے کے وجوب کی دلیل ہے۔٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 580   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2875  
2875. ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: تمہارا جہاد حج ہے۔ (راوی حدیث) عبداللہ بن ولید نے کہا: ہم سے سفیان نے انھوں نے معاویہ سے یہ حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2875]
حدیث حاشیہ:
یہ امام وقت کی بصیرت پر موقوف ہے کہ وہ جنگی کوائف کی بنا پر عورتوں کی شرکت ضروری سمجھتا ہے یا نہیں۔
اگر کوئی مسلمان عورت جہاد میں نہ شریک ہوسکے بلکہ وہ حج ہی کرسکتی ہے تو اس سفر میں اس کے لئے بھی اس کو جہاد ہی کا ثواب ملے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2875