سنن ترمذي
كتاب الرؤيا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: خواب کے آداب و احکام
8. باب فِي الَّذِي يَكْذِبُ فِي حُلْمِهِ
باب: خواب کے بارے میں جھوٹ بولنے والے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2283
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ تَحَلَّمَ كَاذِبًا كُلِّفَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنْ يَعْقِدَ بَيْنَ شَعِيرَتَيْنِ، وَلَنْ يَعْقِدَ بَيْنَهُمَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے تو قیامت کے دن دو جو کے درمیان گرہ لگانے پر مکلف کیا جائے گا اور وہ ان دونوں کے درمیان گرہ ہرگز نہیں لگا سکے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التعبیر 45 (7042)، سنن ابی داود/ الأدب 96 (5024)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا 8 (3916) (تحفة الأشراف: 9586)، و مسند احمد (1/216، 646، 359) (وانظر تخریج حدیث رقم 1751) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3916)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3916  
´جھوٹا خواب بیان کرنے والے کا حکم۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے گا وہ اس بات کا مکلف کیا جائے گا کہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور اس پر وہ عذاب دیا جائے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3916]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس شخص نے خواب نہیں دیکھا اپنے ہی پاس سے بنا کر بیان کردیتا ہے اس کا یہ جھوٹ بہت بڑا گناہ ہے۔

(2)
جھوٹا خواب بیان کرنا اس لیے زیادہ برا ہےکہ اس کی کسی طرح تحقیق نہیں کی جاسکتی كہ اس نے خواب دیکھا ہے یا نہیں۔

(3)
بعض افراد نبی اکرم ﷺ یا کسی اور اہم شخصیت کے خواب میں نظر آنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
عام لوگ اسے ان کی زندگی کی علامت سمجھ کر محبت واحترام کا اظہار شروع کردیتے ہیں حالانکہ اصل شرف نیک اعمال کا انجام دینا ہے ورنہ کافر اور منافق تو حقیقی طور پر نبی ﷺ کو دیکھتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ کسی احترام کےمستحق نہیں گردانے گئے۔

(4)
خواب کسی کام کے جائز یا ناجائز ہونے کا ثبوت نہیں۔
شرعی مسائل کےلیے شرعی دلائل ضروری ہیں۔
کسی کا یہ دعویٰ کہ مجھے نبی ﷺ نے فلاں کام کی اجازت دی ہے قابل قبول نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3916