صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
70. بَابُ الْحِرَاسَةِ فِي الْغَزْوِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:
باب: اللہ کے راستے میں جہاد میں پہرہ دینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 2885
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَهِرَ فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: لَيْتَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِي صَالِحًا يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ إِذْ سَمِعْنَا صَوْتَ سِلَاحٍ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا، فَقَالَ: أَنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ جِئْتُ لِأَحْرُسَكَ، وَنَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید نے خبر دی، کہا ہم کو عبداللہ بن ربیعہ بن عامر نے خبر دی، کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک رات) بیداری میں گزاری، مدینہ پہنچنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش! میرے اصحاب میں سے کوئی نیک مرد ایسا ہوتا جو رات بھر ہمارا پہرہ دیتا! ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ہم نے ہتھیار کی جھنکار سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ (آنے والے نے) کہا میں ہوں سعد بن ابی وقاص، آپ کا پہرہ دینے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے۔ ان کے لیے دعا فرمائی اور آپ سو گئے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3756  
´سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی غزوہ سے مدینہ واپس آنے پر ایک رات نیند نہیں آئی، تو آپ نے فرمایا: کاش کوئی مرد صالح ہوتا جو آج رات میری نگہبانی کرتا، ہم اسی خیال میں تھے کہ ہم نے ہتھیاروں کے کھنکھناہٹ کی آواز سنی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ آنے والے نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم کیوں آئے ہو؟ تو سعد رضی الله عنہ نے کہا: میرے دل میں یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3756]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی: اللہ کے رسول اکرمﷺ کے فرمان (رَجُلٌ صَالِحٌ) کے مصداق سعد رضی اللہ عنہ قرار پائے،
یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہوئی کہ رسول اکرمﷺ کسی کو (رَجُلٌ صَالِحٌ) قرار دیا،
 (رَضِیَ اللہُ عَنْهُ وَأَرْضَاهُ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3756   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2885  
2885. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار رہے جب مدینہ طیبہ پہنچے تو فرمایا: کاش!میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مراد آج رات ہماری پاسبانی کرے۔ پھر ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور آپ کی پاسبانی کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ محو استراحت ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2885]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے خراٹے کی آواز سنی۔
ترمذی نے حضرت عائشہ ؓ سے نکالا نبی اکرمﷺ چوکی پہرہ رکھتے تھے‘ جب یہ آیت اتری ﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدة: 67) (اللہ آپؐ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا)
تو آپ ﷺ نے چوکی پہرہ اٹھا دیا۔
حاکم اور ابن ماجہ نے مرفوعاً نکالا۔
جہاد میں ایک رات چوکی پہرہ دینا ہزار راتوں کی عبادت اور ہزار دنوں کے روزہ سے زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2885   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2885  
2885. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ایک رات بیدار رہے جب مدینہ طیبہ پہنچے تو فرمایا: کاش!میرے صحابہ میں سے کوئی نیک مراد آج رات ہماری پاسبانی کرے۔ پھر ہم نے ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور آپ کی پاسبانی کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ محو استراحت ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2885]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے:
رسول اللہ ﷺ اس رات آرام سے سوئے حتی کہ ہم نے آپ کےخراٹوں کی آواز سنی۔
(صحیح البخاري، التمني، حدیث 7231)

ظاہر روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ مدینہ آنے سے پہلے کا ہے، حالانکہ اس وقت آپ کے پاس عائشہ صدیقہ ؓ نہیں تھیں اور نہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ہی تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیداری مدینہ طیبہ میں آنے کے بعد ایک رات پیش آئی جیساکہ ایک روایت میں ہے:
جب آپ بیدار ہوئے توحضرت عائشہ ؓ آپ کے پاس تھیں۔
(مسند أحمد 141/6)
ترمذی ؒ کی روایت میں ہے:
صحابہ کرام ؓ آپ کا پہرہ دیتے تھے،جب یہ آیت اتری:
﴿وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ اللہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔
(المآئدة: 67/5)
تو آپ نے پہرہ ختم کرادیا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث 3046)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن سے ہروقت محتاط رہنا چاہیے، نیز لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سربراہ کی حفاظت کریں تا کہ کوئی اچانک اسے اذیت نہ دے سکیں۔
یہ بھی معلوم ہواکہ اسباب کی فراہمی توکل کے منافی نہیں کیونکہ توکل دل کا فعل ہے اور اسباب و ذرائع کا استعمال اعضاء وجوارح سے متعلق ہے۔
(فتح الباري: 101/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2885