سنن ترمذي
كتاب الإيمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: ایمان و اسلام
17. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ
باب: موت کے وقت لا إلہ إلا اللہ کی گواہی دینے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2639
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَعَافِرِيِّ ثُمَّ الْحُبُلِيّ , قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً فَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ؟ فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ، فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ يَحْيَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، بِمَعْنَاهُ وَالْبِطَاقَةُ هِيَ الْقِطْعَةُ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے (اس کے گناہوں کے) ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک ہو گا، پھر اللہ عزوجل پوچھے گا: کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا تم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! پھر اللہ کہے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اللہ کہے گا (کوئی بات نہیں) تیری ایک نیکی میرے پاس ہے۔ آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم (و زیادتی) نہ ہو گی، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں لکھا ہو گا۔ اللہ فرمائے گا: جاؤ اپنے اعمال کے وزن کے موقع پر (کانٹے پر) موجود رہو، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: پھر وہ تمام دفتر (رجسٹر) ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، پھر وہ سارے دفتر اٹھ جائیں گے، اور پرچہ بھاری ہو گا۔ (اور سچی بات یہ ہے کہ) اللہ کے نام کے ساتھ (یعنی اس کے مقابلہ میں) جب کوئی چیز تولی جائے گی، تو وہ چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہو سکتی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 35 (300) (تحفة الأشراف: 8855) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4300)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4300  
´روز قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن تمام لوگوں کے سامنے میری امت کے ایک شخص کی پکار ہو گی، اور اس کے ننانوے دفتر پھیلا دئیے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک پھیلا ہو گا، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تم اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو؟ وہ کہے گا: نہیں، اے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا میرے محافظ کاتبوں نے تم پر ظلم کیا ہے؟ پھر فرمائے گا: کیا تمہارے پاس کوئی نیکی بھی ہے؟ وہ آدمی ڈر جائے گا، اور کہے گا: نہیں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: نہیں، ہمارے پاس کئی نیکیاں ہیں، اور آج ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4300]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قیامت کے دن بعض لوگ بغیر حساب کتاب کے جنت میں چلے جایئں گے۔
دیکھئے: (حدیث: 4286)
اور جہنم میں جانے والے بعض لوگ بھی ایسے ہی ہوں گے۔
جن کے اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گا۔
کیونکہ ان کی سب نیکیاں ضائع ہوچکی ہوں گی۔
دیکھئے: (سورہ کہف: 18: 105)

(2)
نیکیوں کے وزن کا دارومدار خلوص نیت اور اتباع سنت پر ہوگا۔
کوئی نیکی جنتے خلوص سے کی گئی ہوگی۔
اور سنت سے زیادہ جتنی مطابقت رکھے گی اتنا ہی اس کا وزن زیادہ ہوگا۔

(3)
کلمہ شہادت یعنی توحید ورسالت پر دل سے ایمان لانا ایسا عمل ہے جس سے تمام سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
اس لئے اگر کسی شخص کو ایمان لانے کے بعد نیک اعمال انجام دینے کاموقع نہیں ملا۔
اور وہ فوت ہوگیا تو اس کا کلمہ شہادت اس کی نجات کےلئے کافی ہوگا۔
حدیث میں ایسا ہی شخص مراد ہے۔

(4)
اسلام قبول کرنے کے بعد اس کے مطابق عمل نہ کرنے والے کا کلمہ شہادت اسے جہنم میں جانے سے نہیں بچاسکے گا۔
لیکن وہ گناہوں کی سزا بھگت کر جہنم سے نکل آئے گا۔
اور کلمے کی وجہ سے اس کی نجات ہوجائے گی۔

(5)
جس نے کلمہ شہادت صرف زبان سے ادا کیا۔
دل میں اس پر یقین نہیں رکھا۔
وہ منافق ہے جو دائمی جہنمی ہے۔
اس کی سزا عام کافر سے سخت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلَ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيْرًا﴾  (النساء 4/ 145)
 منافق یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میں جایئں گے ناممکن ہے کہ وہاں آپ کو ان کا کوئی مددگار ملےگا (6)
یہ حدیث اہل علم میں حدیث بطاقہ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ حدیث عاصی اہل ایمان کے لئے اللہ عزوجل کی خصوصی رحمت اور کمال مہربانی کا مظہر معلوم ہوتی ہے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4300   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2639  
´موت کے وقت لا إلہ إلا اللہ کی گواہی دینے کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے (اس کے گناہوں کے) ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک ہو گا، پھر اللہ عزوجل پوچھے گا: کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا تم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! پھر اللہ کہے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اللہ کہے گا (کوئی بات نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2639]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (ﷺ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2639   
n
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4300)