سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
31. باب مَا جَاءَ فِي الْمُصَافَحَةِ
باب: مصافحہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2727
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَجْلَحِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمَيْنِ يَلْتَقِيَانِ فَيَتَصَافَحَانِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمَا قَبْلَ أَنْ يَفْتَرِقَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنِ الْبَرَاءِ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْأَجْلَحُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُجَيَّةَ بْنِ عَدِيٍّ الْكِنْدِيُّ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث براء سے متعدد سندوں سے بھی مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 153 (5213)، سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3703) (تحفة الأشراف: 1799)، و مسند احمد (4/289، 303) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تو دوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے، اس مغفرت کا تعلق صرف صغیرہ گناہوں سے ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں سے، کبیرہ گناہ تو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3703)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3703  
´مصافحہ (یعنی ہاتھ ملانے) کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور مصافحہ کرتے (ہاتھ ملاتے) ہیں، تو ان کے جدا ہونے سے پہلے ان کی مغفرت کر دی جاتی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3703]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور مزید لکھا ہے کہ اس کے بہت سے شواہد ہیں لیکن ان کی صحت کی طرف اشارہ نہیں کیا، غالباً انہی شواہد کی بنا پر دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
محققین کی بحث و تحقیق سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے، لہٰذا مذکورہ روایت شواہد کی بنا پر قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللہ أعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 30/ 517، 518 والصحيحة، رقم: 525، 526)
بنا بریں مسلمانوں کی باہمی ملاقات آپس میں محبت کے اضافے کے ساتھ ساتھ گناہوں کی معافی کا باعث بھی ہے۔

(2)
ایسے اعمال سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں- کبیرہ گناہ توبہ کے بغیراور حقوق العباد ادائیگی کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3703   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2727  
´مصافحہ کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے ملتے اور (سلام) و مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ اور جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2727]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے ملاقات کرنا اور مصافحہ کرنا اگر ایک طرف دونوں میں محبت کا باعث ہے تودوسری جانب گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہے،
اس مغفرت کا تعلق صرف صغیرہ گناہوں سے ہے نہ کہ کبیرہ گناہوں سے،
کبیرہ گناہ تو توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2727   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5212  
´مصافحہ کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان آپس میں ملتے اور دونوں ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں تو ان دونوں کے ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے سے پہلے ہی ان کی مغفرت ہو جاتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5212]
فوائد ومسائل:
یہ روایت بعض محققین کے نزدیک صحیح ہے۔
مسلمانوں کا ایک دوسرے کے ساتھ خوش دلی سےملنا اور مصافحہ کرنا آپس میں محبت کے اضافے اور اللہ تعالی کی طرف سے بخشش کا ذریعہ ہے۔
مصافحہ ایک مسنون اور مستحب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5212