سنن ترمذي
كتاب الاستئذان والآداب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
33. باب مَا جَاءَ فِي قُبْلَةِ الْيَدِ وَالرِّجْلِ
باب: ہاتھ پیر کا بوسہ لینا (کیسا ہے؟)۔
حدیث نمبر: 2733
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، وَأَبُو أُسَامَةَ , عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ، فَقَالَ صَاحِبُهُ: لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ، فَقَالَ لَهُمْ: " لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ، وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ "، قَالَ: فَقَبَّلُوا يَدَهُ وَرِجْلَهُ، فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: " فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي "، قَالُوا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّهُ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ , وفي الباب عن يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی، پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے (موسیٰ علیہ السلام کو دی گئیں) نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا (۱) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ (۲) چوری نہ کرو (۳) زنا نہ کرو (۴) ناحق کسی کو قتل نہ کرو (۵) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے (۶) جادو نہ کرو (۷) سود مت کھاؤ (۸) پارسا عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ (۹) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ «سبت» (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو، (آپ کا جواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا: پھر تمہیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟ انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع (پیروی) کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3705)، وأعادہ المؤلف في التفسیر (3144) والنسائی فی الکبری فی السیر (8656) وفی المحاربة (3541) (تحفة الأشراف: 4951) وأحمد (4/239) (ضعیف) (سند میں ”عبد اللہ بن سلمہ“ مختلط ہو گئے تھے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808) ، والذي هنا أتم وانظر الآتي برقم (613 / 3365) ، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) //
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 58  
´یہودیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لصَاحبه اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِي فَقَالَ صَاحِبُهُ لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَة أَعْيُنٍ فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ فَقَالَ لَهُم: «لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوا وَلَا تَزْنُوا وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ وَلَا تَسْحَرُوا وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا وَلَا تَقْذِفُوا مُحصنَة وَلَا توَلّوا الْفِرَار يَوْمَ الزَّحْفِ وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدوا فِي السبت» . قَالَ فقبلوا يَده وَرجله فَقَالَا نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ قَالَ فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تتبعوني قَالُوا إِن دَاوُد دَعَا ربه أَن لَا يزَال فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ . . .»
. . . سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ایک یہودی نے اپنے یہودی دوست سے کہا کہ یار تم میرے ساتھ اس نبی کے پاس چلو (اس پر) اس کے یہودی دوست نے کہا: اس کو نبی نہ کہو۔ اگر اس نے تمہارے ان الفاظ کو سن لیا (کہ یہودی بھی مجھے نبی کا لفظ کہہ کر پکارتے ہیں) تو اس کی چار آنکھیں ہو جائیں گی (یعنی وہ بہت ہی خوش ہو گا)۔ وہ دونوں یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مقدسہ میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نو کھلی ہوئی نشانیاں پوچھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (۱) کبھی بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، (۲) اور نہ چوری کرو، (۳) اور نہ زنا و بدکاری کرو، (۴) اور نہ ناحق کسی جاندار کو قتل کرو۔ جس کے مارنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ، (۵) اور کسی بےگناہ اور بےقصور شخص کو غلط الزام میں گرفتار کر کے حاکم کے پاس نہ لے جاؤ کہ اس کو قتل کر ڈالے، (٦) اور نہ جادو کرو، (۷) اور نہ سود کھاؤ، (۸) اور نہ کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگاؤ، (۹) جہاد کے دن پشت پھیر کر نہ بھاگو۔ اور اے یہود تمہارے ذمہ یہ بھی ضروری ہے کے ہفتے کے دن زیادتی نہ کرو۔ حدیث کے راوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات طیبات کو سن کر ان دونوں یہودیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں دست مبارک اور دونوں پیر مقدس کو چوم لیا۔ اور دونوں نے عرض کیا کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یقیناًً آپ نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم مجھے نبی برحق تسلیم کرتے ہو تو میری تعبداری کرنے سے تمہیں کون سی چیز روکتی ہے؟ ان دونوں نے کہا: داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ نبی ہمیشہ انہی کی اولاد میں ہوتا رہے گا۔ اور ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی فرمانبرداری قبول کر لیں تو یہودی ہم کو قتل کر ڈالیں گے۔ اس حدیث کو ترمذی، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 58]

تحقیق الحدیث:
اس روایت کی سند حسن ہے۔
اسے ترمذی [2733] و نسائی [4083] کے علاوہ ابن ماجہ [3705] أحمد بن حنبل [4؍239 ح18092، 4؍240 ح18096] حاکم [1؍9 ح20] ابن ابی شیبہ [المصنف 14؍289 ح36532، المسند 2؍367۔ 369 ح880، 881] ابوداود الطیالسی [1164] اور طحاوی [معانی الآثار 3؍215] وغیرہم نے «شعبة عن عمرو بن مره عن عبدالله بن سلمه عن صفوان» کی سند سے روایت کیا ہے۔
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔ شعبہ بن الحجاج اور عمرو بن مرہ مشہور ثقہ راوی ہیں۔ مثلا دیکھئے: [تقریب التہذیب 2790، 5112]

عبداللہ بن سلمہ پر درج ذیل علماء نے جرح کی ہے:
① البخاری، «قال: لا يتابع فى حديثه» [التاريخ الكبير 5؍99]
② ابوحاتم الرازی، «قال: تعرف وتنكر» [الجرح والتعدیل 5؍74]
③ النسائی، «قال: يعرف وينكر» [كتاب الضعفاء والمتروكين: 347]
④ العقیلی، «ذكره فى الضعفاء» [الضعفاء الكبير 2؍265]
⑤ ابن الجوزی، «ذكره فى الضعفاء» [2؍125 ت2038]
⑥ ابو احمد الحاکم: «حديثه ليس بالقائم» [كتاب الكنيٰ بحواله تهذيب التهذيب 5؍241]

درج ذیل علماء نے عبداللہ بن سلمہ مذکور کی توثیق کی ہے:
① العجلی، «قال: ثقه» [كتاب التاريخ: 819]
② ابن عدی، قال: «وأرجو أنه لا بأس به» [الكامل 4؍1487]
③ ابن حبان، «قال: يخطئ» [الثقات 5؍12] «وصحح حديثه» [الاحسان: 796، 797، 6901، 7039]
④ ابن خزیمہ، «روى له فى صحيحه» [ح2080]
⑤ ابن الجارود، «روى له فى المنتقىٰ» [ح94]
⑥ ترمذی، «صحح له» [ح146]
⑦ البغوی، «صحح له» [شرح السنة 2؍41 ح273]
⑧ الحاکم، «صحح له» [المستدرک 1؍52، ح541، 4؍107 ح7083]
⑨ الذہبی، «صحح له» [تلخيص المستدرك 1؍152، 4؍107]
⑩ الہیثمی، «قال فى حديثه: رواه الطبراني وإسناده حسن» [مجمع الزوائد 9؍292]
◈ یعقوب بن شیبہ، «قال: ثقه» [تهذيب التهذيب 5؍241 بغير سند]
◈ ابن السکن، «صحح له» [التلخيص الحبير 1؍139 ح184]
◈ عبدالحق الاشبلی، «صحح له» [التلخيص 1؍139]
⑪ حافظ ابن حجر، «قال: والحق أنه من قبيل الحسن يصلح للحجة» اور حق یہ ہے کہ وہ حسن کی قسم (کے راویوں) میں سے ہے جو کہ حجت بنانے کے لائق ہے۔ [فتح الباري 1؍324]
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ عبداللہ بن سلمہ جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق راوی ہیں، لہٰذا ان کی حدیث حسن کے درجے سے قطعاً نہیں گرتی۔ جمہور محدثین کرام کا ان کی بیان کردہ حدیث کو حسن یا صحیح قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ عمرو بن مرہ کا عبداللہ بن سلمہ سے سماع ان کے اختلاط سے پہلے کا ہے، لہٰذا اس سند پر اختلاط کا الزام مردود ہے۔
سنن دارقطنی میں ہے کہ شعبہ نے عبداللہ بن سلمہ کی ایک حدیث کے بارے میں فرمایا:
«ما أحدث بحديث أحسن منه»
میں اس حدیث سے زیادہ اچھی کوئی حدیث بیان نہیں کرتا۔ [1؍119، 120 ح423]
معلوم ہوا کہ شعبہ کے نزدیک عمرو بن مرہ کا عبداللہ بن سلمہ سے سماع اختلاط سے پہلے کا ہے۔
ابن خزیمہ نے صحیح سند کے ساتھ امام شعبہ سے نقل کیا:
«هذا حديث ثلث رأس مالي»
یہ حدیث میرے سرمائے کا تیسرا حصہ ہے۔ [1؍104 ح208]

تنبیہ:
سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ سنن ابی داود میں نہیں ملی۔!!

فقہ الحدیث:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عام یہودی علماء کو یہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی اور رسول ہیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے تھے۔ معلوم ہوا کہ صرف دل میں کسی بات کا یقین کر لینا اس بات کی حتمی دلیل نہیں ہے کہ ایسا شخص اب مومن ہو گیا ہے، بلکہ دلی یقین کے ساتھ زبانی اقرار اور جسمانی عمل ضروری ہے۔
➋ اس حدیث میں جن نو آیتوں (اور دسویں بات) کا ذکر ہے، یہ دس احکام ہیں جو بنی اسرائیل کو دیئے گئے تھے۔ سورۂ بنی اسرائیل [101] میں جن نو آیات (نشانیوں) کا ذکر آیا ہے وہ ان کے علاوہ نشانیاں ہیں۔ ابوالحسن علی بن أحمد الواحدی [متوفی 468ھ] فرماتے ہیں:
مفسرین یہ کہتے ہیں کہ ان نو نشانیوں سے مراد یہ ہے:
① طوفان
② ٹڈی دل
③ جوئیں
④ مینڈک
⑤ خون
⑥ عصا
⑦ موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ
⑦ بارش نہ برسنے والے سال
⑨ اور پھلوں میں کمی۔ دیکھئے: [الوسیط ج3ص130]
ان نشانیوں کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ان میں سے کئی نشانیاں وہ عذاب ہیں جو فرعونیوں پر بھیجے گئے۔ نیز دیکھئے: [تفسیر ابن کثیر 4؍187]
➌ بہت سے لوگ حق تسلیم نہ کرنے کے لئے جعلی عذر تراشنے اور جھوٹ بولنے سے ذرا بھی نہیں شرماتے ورنہ یہودیوں کی اپنی تسلیم کردہ محرف تورات میں لکھا ہوا ہے کہ میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا۔۔۔۔ [استثناء 16: 18 ص184]
لہٰذا آل داود والی بات نہ رہی بلکہ بنی اسرائیل کے بھائیوں بنی اسماعیل میں سے آخری نبی آ چکا مگر یہودی حضرات جھوٹ بولنے اور کفر سے ذرا بھی نہیں شرماتے۔
➍ ہاتھ چومنا دوسری روایت سے بھی ثابت ہے۔ عاصم بن بہدلہ نے کہا کہ جب ابووائل (شفیق بن سلمہ تابعی) سفر سے آتے تو میرا ہاتھ چومتے۔ [التقبيل والمعانقة لا بن الاعرابي بتحقيقي: 5 و سنده صحيح]
عبدالرحمٰن بن رزین وغیرہ تابعین نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا ہاتھ چوما۔ [التقبيل والمعانقه: 36 وسنده حسن، طبقات ابن سعد 4؍306، مسند أحمد 4؍54، 55، الادب المفرد للبخاري: 973 وقال الالباني: حسن الاسناد]
یزید بن الاسود (تابعی) نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کا ہاتھ چوما۔ [التقبيل والمعانقة: 37 وسنده صحيح]
لیکن دوسری روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاؤں چومنا منسوخ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا۔ دیکھئے: [سنن ابن ماجه: 1853 ومسند أحمد 4؍381 وصحيح ابن حبان، الموارد: 1290 وسنده حسن]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 58   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3144  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
صفوان بن عسال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات» ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں (اسرائیل: ۱۰۱)، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3144]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں (اسرائیل: 101)

نوٹ:
(سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں،
لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3144