سنن ترمذي
كتاب القراءات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: قرآن کریم کی قرأت و تلاوت
13. باب مِنْهُ
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 2949
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلًّمَ، قَالَ: " لَمْ يَفْقَهْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلاثٍ "، قَالَ أَبُو عَيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے قرآن سمجھا ہی نہیں جس نے تین دن سے کم مدت میں قرآن ختم کر ڈالا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 326 (1394)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 178 (1347) (تحفة الأشراف: 8950)، و مسند احمد (2/146، 189) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1260) ، المشكاة (2201) ، الصحيحة (1513)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1347  
´قرآن مجید کو کتنے دن میں ختم کرنا مستحب ہے؟`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن تین دن سے کم میں پڑھا، اس نے سمجھ کر نہیں پڑھا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1347]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت میں قرآن مجید ختم کرنے کی مدت تین دن بیان ہوئی ہے۔
اورگزشتہ روایت میں سات دن اور بعض روایات میں پانچ دنوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔
کہ ان روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو کو مختلف اوقات میں تاکید کے طور پر یہ ارشادات فرمائے۔
نیز امام نووی رحمۃ اللہ علیہ ا س کی بابت یوں رقمطراز ہیں۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم قرآن کی بابت دنوں کے تعین میں مختلف فرامین ہیں۔
تو اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے مختلف اشخاص کے احوال کے پیش نظریہ فرامین ارشاد فرمائے۔
یعنی ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تین دن فرمائے۔
اور ایک کو سات دن اور ایک کو پانچ دن لہٰذا تین دن سے کم مدت میں قرآن مجید ختم نہیں کرنا چاہیے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (فتح الباري97/9  والموسوعة الحدیثیة مسندالإمام أحمد: 53، 52/11)

(2)
تلاوت قرآن مجید کا اصل مقصد اس کا فہم اور اس پر غور وفکر ہے اس لئے قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنا ضروری ہے۔
مزید کسی اچھے عالم کی تفسیر کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔
تاہم سلف صالحین کی فکر سے ہٹ کر تفسیر کرنے والوں کی تصنیفات سے اجتناب ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1347   
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدثَنَا شُعْبَةُ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
بیان کیا مجھ سے محمد بن بشار نے، وہ کہتے ہیں: بیان کیا مجھ سے محمد بن جعفر نے، وہ کہتے ہیں: مجھ سے شعبہ نے اس سند سے اسی جیسی حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1260) ، المشكاة (2201) ، الصحيحة (1513)