صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
123. بَابُ حَمْلِ الزَّادِ فِي الْغَزْوِ:
باب: سفر جہاد میں توشہ (خرچ وغیرہ) ساتھ رکھنا۔
حدیث نمبر: 2982
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَفَّتْ أَزْوَادُ النَّاسِ، وَأَمْلَقُوا فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَحْرِ إِبِلِهِمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَلَقِيَهُمْ عُمَرُ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: مَا بَقَاؤُكُمْ بَعْدَ إِبِلِكُمْ فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا بَقَاؤُهُمْ بَعْدَ إِبِلِهِمْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَادِ فِي النَّاسِ يَأْتُونَ بِفَضْلِ أَزْوَادِهِمْ، فَدَعَا وَبَرَّكَ عَلَيْهِ ثُمَّ دَعَاهُمْ بِأَوْعِيَتِهِمْ فَاحْتَثَى النَّاسُ حَتَّى فَرَغُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ".
ہم سے بشر بن مرحوم نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب لوگوں کے پاس زاد راہ ختم ہونے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگ اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت لینے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس اجازت کی اطلاع انہیں بھی ان لوگوں نے دی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا، ان اونٹوں کے بعد پھر تمہارے پاس باقی کیا رہ جائے گا (کیونکہ انہیں پر سوار ہو کر اتنی دور دراز کی مسافت بھی تو طے کرنی تھی) اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! لوگ اگر اپنے اونٹ بھی ذبح کر دیں گے۔ تو پھر اس کے بعد ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر لوگوں میں اعلان کر دو کہ (اونٹوں کو ذبح کرنے کے بجائے) اپنا بچا کچھا توشہ لے کر یہاں آ جائیں۔ (سب لوگوں نے جو کچھ بھی ان کے پاس کھانے کی چیز باقی بچ گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لا کر رکھ دی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور اس میں برکت ہوئی۔ پھر سب کو ان کے برتنوں کے ساتھ آپ نے بلایا۔ سب نے بھربھر کر اس میں سے لیا۔ اور جب سب لوگ فارغ ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2982  
2982. حضرت سلمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ دوران سفر میں صحابہ کرام ؓ کا سفری کھانا کم ہو گیا جس سے وہ قلاش ہو گئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی، آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہو گئی تو انھوں نے اس اجازت کی اطلاع انھیں دی۔ انھوں نے فرمایا: ان اونٹوں کے بعد پھر تمھارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگ اگر اپنے اونٹ ذبح کر دیں تو پھر ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اپنا بچا ہوا زاد سفر میرے پاس لائیں۔ چنانچہ آپ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلایا۔ سب نے بھر بھر کر کھانا لیا۔ جب فارغ ہو گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2982]
حدیث حاشیہ:
یہ معجزہ دیکھ کر خود آپﷺ نے اپنی رسالت پر گواہی دی‘ معجزہ اللہ پاک کی طرف سے ہوتا ہے جسے وہ اپنے رسولوں کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں سے دکھلایا کرتا ہے۔
حضرت عمر ؓنے یہ اس لئے فرمایا کہ اونٹ تمام ذبح کر دئیے جاتے تو پھر فوجی مسلمان سواری کس پر کرتے اور سارا سفر پیدل کرنا بے حد مشکل تھا۔
یہ مشورہ صحیح تھا اس لئے آنحضرتﷺ نے اسے قبول فرمایا اور بعد میں سارے فوجیوں کے راشن کو جو باقی رہ گیا تھا آپﷺ نے اکٹھا کرا کر برکت کی دعا فرمائی اور اللہ نے اس میں اتنی برکت دی کہ سارے فوجیوں کو کافی ہوگیا۔
معجزے کا وجود برحق ہے۔
مگر یہ اللہ کی مرضی پر ہے وہ جب چاہے اپنے مقبول بندوں کے ہاتھوں یہ دکھلائے۔
خود رسولوں کو اپنے طور پر اس میں کوئی اختیار نہیں ہے۔
﴿ذالكَ فضلُ اللہِ یؤتیهِ مَن یشاءُ﴾ اس حدیث کے تحت حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ حُسْنُ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجَابَتُهُ إِلَى مَا يَلْتَمِسُ مِنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِجْرَاؤُهُمْ عَلَى الْعَادَةِ الْبَشَرِيَّةِ فِي الِاحْتِيَاجِ إِلَى الزَّادِ فِي السَّفَرِ وَمَنْقَبَةٌ ظَاهِرَةٌ لِعُمَرَ دَالَّةٌ عَلَى قُوَّةِ يَقِينِهِ بِإِجَابَةِ دُعَاءِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى حُسْنِ نَظَرِهِ لِلْمُسْلِمِينَ عَلَى أَنَّهُ لَيْسَ فِي إِجَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ عَلَى نَحْرِ إِبِلِهِمْ مَا يَتَحَتَّمُ أَنَّهُمْ يَبْقَوْنَ بِلَا ظَهْرٍ لِاحْتِمَالِ أَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ لَهُمْ مَا يَحْمِلُهُمْ مِنْ غَنِيمَةٍ وَنَحْوِهَا لَكِنْ أَجَابَ عُمَرُ إِلَى مَا أَشَارَ بِهِ لِتَعْجِيلِ الْمُعْجِزَةِ بِالْبَرَكَةِ الَّتِي حَصَلَتْ فِي الطَّعَامِ وَقَدْ وَقَعَ لِعُمَرَ شَبِيهٌ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ فِي المَاء وَذَلِكَ فِيمَا أخرجه بن خُزَيْمَةَ وَغَيْرُهُ وَسَتَأْتِي الْإِشَارَةُ إِلَيْهِ فِي عَلَامَاتِ النُّبُوَّةِ الخ (فتح الباري)
یعنی اس حدیث سے آنحضرتﷺ کے اخلاق فاضلہ پر روشنی پڑتی ہے اور اس پر بھی کہ آپﷺ صحابہ کرامؓ کے کسی بھی بارے میں التماس کرنے پر فوراً توجہ فرماتے اور سفر میں توشہ راشن وغیرہ حاجات انسانی کا ان کے لئے پورا پورا خیال رکھتے تھے۔
اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ ان کو آنحضرتﷺ کی دعاؤں کی قبولیت پر کس قدر یقین کامل تھا اور مسلمانوں کے متعلق ان کی کتنی اچھی نظر تھی۔
وہ جانتے تھے کہ آنحضرتﷺ نے ان کے لئے جو اونٹوں کو ذبح کرنے کا مشورہ دیا ہے یہ اس احتمال پر ہے کہ ان کو ذبح کرنے کے بعد بھی اللہ پاک ان کے لئے غنیمت وغیرہ سے سواریوں کا انتظام کرا ہی دے گا۔
لیکن حضرت عمر ؓ نے آنحضرتﷺ کی برکت کی دعاؤں کے لئے عجلت فرمائی تاکہ بطور معجزہ کھانے میں برکت حاصل ہو اور اونٹوں کو ذبح کرنے کی نوبت ہی نہ آنے پائے۔
ایک دفعہ پانی کے قصہ میں بھی حضرت عمر ؓ کو اسی کے مشابہ معاملہ پیش آیا تھا۔
جس کا اشارہ علامات النبوۃ میں آئے گا۔
بعض فقہاء نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ گرانی کے وقت امام لوگوں کے فالتو غلہ کے ذخیروں کو بازار میں فروخت کے لئے حکماً نکلوا سکتا ہے۔
اس لئے کہ لوگوں کے لئے اسی میں خیر ہے نہ کہ غلہ کے پوشیدہ رکھنے میں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2982   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2982  
2982. حضرت سلمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ دوران سفر میں صحابہ کرام ؓ کا سفری کھانا کم ہو گیا جس سے وہ قلاش ہو گئے۔ انھوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی، آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ اتنے میں حضرت عمر ؓ سے ان کی ملاقات ہو گئی تو انھوں نے اس اجازت کی اطلاع انھیں دی۔ انھوں نے فرمایا: ان اونٹوں کے بعد پھر تمھارے پاس کیا باقی رہ جائے گا؟ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! لوگ اگر اپنے اونٹ ذبح کر دیں تو پھر ان کے پاس باقی کیا رہ جائے گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں میں اعلان کردو کہ وہ اپنا بچا ہوا زاد سفر میرے پاس لائیں۔ چنانچہ آپ نے اس پر برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ نے سب لوگوں کو ان کے برتنوں سمیت بلایا۔ سب نے بھر بھر کر کھانا لیا۔ جب فارغ ہو گئے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2982]
حدیث حاشیہ:

حضرت عمر ؓ بہت صائب الرائے تھے جب انھوں نے یہ مشورہ دیا کہ جب اونٹ ذبح کر دیے جائیں گے تو مجاہدین کس پر سواری کریں گے اور سارا سفر پیدل طے کرنا بے حد مشکل ہے۔
چونکہ یہ مشورہ صحیح تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے قبول فرمایا:
اور باقی ماندہ راشن جمع کرنے کا حکم دیا۔
آپ نے برکت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی کہ تمام مجاہدین کو کافی ہو گیا۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ دوران سفر میں اپنے صحابہ کرام ؓ کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔

امام بخاری ؓ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ دوران سفر میں زاداہ ہمراہ رکھنا چاہیے۔
ایسا کرنا تو کل کے خلاف نہیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2982