عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتا دینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے ۱؎ اور اس کی باغبانی: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» سے ہوتی ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت ہے اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: جنت کو ”جنت“ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں درخت ہی درخت ہیں، جنت کے معنی ہوتے ہی ”باغات“ ہیں تو پھر ”خالی پڑی ہوئی ہے“ کا کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ اس کے درخت بندوں کے اعمال ہی کا ثمرہ ہیں، اللہ کو اپنی غیب دانی سے یہ معلوم ہے کہ کون کون بندے اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوں گے، سو اس نے ان کے اعمال کے بقدر وہاں درخت اگا دیئے ہیں، یا اُگا دے گا، اس لحاظ سے گویا جنت درختوں سے خالی ایک میدان ہے۔
۲؎: یعنی: بندہ جتنی بار کلمات کو کہتا ہے، اتنے ہی درخت پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 245 و 256) ، الكلم الطيب (15 / 6) ، الصحيحة (106)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3462
´باب:۔۔۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم علیہ السلام سے ملا، ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ”اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتا دینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے ۱؎ اور اس کی باغبانی: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر» سے ہوتی ہے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3462]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جنت کو”جنت“ اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں درخت ہی درخت ہیں، جنت کے معنی ہوتے ہی ”باغات“ ہیں تو پھر”خالی پڑی ہوئی ہے“ کا کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ اس کے درخت بندوں کے اعمال ہی کا ثمرہ ہیں، اللہ کو اپنی غیب دانی سے یہ معلوم ہے کہ کون کون بندے اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہوں گے، سو اس نے ان کے اعمال کے بقدر وہاں درخت اگا دیئے ہیں، یا اُگا دے گا، اس لحاظ سے گویا جنت درختوں سے خالی ایک میدان ہے۔
2؎: یعنی: بندہ جتنی بار کلمات کو کہتا ہے، اتنے ہی درخت پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3462