صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
136. بَابُ السُّرْعَةِ فِي السَّيْرِ:
باب: سفر میں تیز چلنا۔
قَالَ: أَبُو حُمَيْدٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيُعَجِّلْ".
ابوحمید نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مدینہ جلدی پہنچنا چاہتا ہوں اس لیے اگر کوئی شخص میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے تو چلے۔
حدیث نمبر: 2999
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: سُئِلَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ يَحْيَى يَقُولُ وَأَنَا أَسْمَعُ، فَسَقَطَ عَنِّي عَنْ مَسِيرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، قَالَ:" فَكَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ، وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجۃ الوداع کے سفر کی رفتار کے متعلق پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس کس چال پر چلتے، یحییٰ نے کہا عروہ نے یہ بھی کہا تھا (کہ میں سن رہا تھا) لیکن میں اس کا کہنا بھول گیا۔ غرض اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا تیز چلتے جب فراخ جگہ پاتے تو سواری کو دوڑا دیتے۔ «نص» اونٹ کی چال جو «عنق‏.‏» سے تیز ہوتی ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3017  
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: عرفات سے لوٹتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے چلتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم «عنق» کی چال (تیز چال) چلتے، اور جب خالی جگہ پاتے تو «نص» کرتے یعنی دوڑتے۔ وکیع کہتے ہیں کہ «عنق» سے زیادہ تیز چال کو «نص» کہتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3017]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عنق اس درمیانی رفتار کو کہتے ہیں جو بہت آہستہ بھی نہ ہو اور زیادہ تیز بھی نہ ہو۔

(2)
نص اونٹ کی تیز رفتار کو کہتے ہیں۔

(3)
بھیڑ بھاڑ کے مقامات پر تیز رفتاری مناسب نہیں کیونکہ اس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے اور حادثے کا خطرہ ہوتا ہے۔

(4)
جانور سے اس کی طاقت کے مطابق ضرورت کے مطابق زیادہ کام بھی لیا جاسکتا ہے۔
لیکن یہ نہیں ہونا چاہے کہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ کا م لینے کی کوشش کی جائے بلکہ اس کے آرام کا بھی خیال رکھنا جاہیئے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3017   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1923  
´عرفات سے لوٹنے کا بیان۔`
عروہ کہتے ہیں کہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں عرفات سے لوٹتے وقت کیسے چلتے تھے؟ فرمایا: تیز چال چلتے تھے، اور جب راستہ پا جاتے تو دوڑتے۔ ہشام کہتے ہیں: «نص»، «عنق» سے بھی زیادہ تیز چال کو کہتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1923]
1923. اردو حاشیہ: تابعین کرام اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین میں اس مسئلے کا مذاکرہ دلیل ہے۔خیر القرون کے یہ حضرات رسول اللہ ﷺ کے ایک ایک فعل کے امین اور اس کے قائل وفاعل تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1923   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2999  
2999. حضرت ہشام بن عروہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھے میرے باپ نے بتایا کہ حضرت اسامہ بن زید ؓ سے نبی ﷺ کی حجۃالوداع میں رفتارکے متعلق پوچھا گیا۔۔۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عروہ نے کہا: میں یہ گفتگو سن رہا تھا۔ (یحییٰ کہتے ہیں)لیکن مجھ سے یہ ساقط ہوگیا۔۔۔ توانھوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ درمیانی چال سے چلتے تھے اور جب وسیع میدان پاتے تو اپنی سواری کو دوڑا دیتے۔ نص، اونٹ کی اس رفتار کو کہتے ہیں جو عام رفتار سے تیز ہوتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2999]
حدیث حاشیہ:
والعنق السیر السھل والفجوة الفرجة بین الشیئین والنص السیر الشدید (کرماني)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2999