سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم -- کتاب: فضائل و مناقب
64. باب فَضْلِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 3897
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، وَالْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ شَيْئًا ". وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ هَذَا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی کسی کی کوئی بات مجھے نہ پہنچائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اس حدیث کا کچھ حصہ اس سند کے علاوہ سے بھی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے مرفوعاً آیا ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: **
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3896  
´امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کی فضیلت کا بیان`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اصحاب میں سے کوئی کسی کی برائی مجھ تک نہ پہنچائے، کیونکہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ جب میں ان کی طرف نکلوں تو میرا سینہ صاف ہو، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا اور آپ نے اسے تقسیم کر دیا، تو میں دو آدمیوں کے پاس پہنچا جو بیٹھے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: قسم اللہ کی! محمد نے اپنی اس تقسیم سے جو انہوں نے کی ہے نہ رضائے الٰہی طلب کی ہے نہ دار آخرت، جب میں نے اسے سنا تو یہ بات مجھے بر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3896]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں زید بن زائدہ لین الحدیث راوی ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3896   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4860  
´لگانے بجھانے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ میں سے کوئی کسی کے بارے میں کوئی شکایت مجھ تک نہ پہنچائے، اس لیے کہ میں چاہتا ہوں کہ میں (گھر سے) نکل کر تمہاری طرف آؤں، تو میرا سینہ صاف ہو (یعنی کسی کی طرف سے میرے دل کوئی میں کدورت نہ ہو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4860]
فوائد ومسائل:
انسان کو جب کسی اپنے پرائے کی کو ئی غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
زبان یا عمل سے خواہ اس کا اظہار نہ بھی کرے، مگر دل میں ضرور اس کا اثر ہوتا ہے۔
اس لئے بلا وجہِ معقول کسی کی غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہیئے۔
ہاں اگر شرعی ضرورت ہو۔
مثلاَ کسی واسطے سے اس کی نصیحت اور اصلاح مقصود ہو یا کسی کو متنبہ رکھنا مقصود ہوتا جائز ہے۔
یا وہ ازحد فاسق، فاجر اور ظالم ہو۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے: (لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا) برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے۔
(النساء: 148) علمائے اخلاق لکھتے ہیں کہ جو آدمی آپکے سامنے دوسروں پر تبصرے کرتا اور ان کی باتیں نقل کرتا ہے، غالب گمان ہے کہ وہ آپ کے متعلق بھی دوسروں کے ہاں باتیں کرتا ہوگا، اس لیے ایسے آدمی کی اس عادت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہییے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4860