صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
164. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّنَازُعِ وَالاِخْتِلاَفِ فِي الْحَرْبِ وَعُقُوبَةِ مَنْ عَصَى إِمَامَهُ:
باب: جنگ میں جھگڑا اور اختلاف کرنا مکروہ ہے اور جو سردار لشکر کی نافرمانی کرے، اس کی سزا کا بیان۔
حدیث نمبر: 3039
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، قَالَ: جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ:" إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ فَهَزَمُوهُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ: أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ أَيْ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ، فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا، قَالَ: لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَدْ قُتِلُوا فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ، قَالَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ أُعْلُ هُبَلْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ: إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالَ: قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر (تیر اندازوں کے) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم! غنیمت تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں۔ اب ڈر کس بات کا ہے۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے۔ جب یہ لوگ (اکثریت) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور (مسلمانوں کو) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی (جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے۔ اس سے یہی مراد ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے۔ بدر کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ (جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘ پھر پوچھا ابن خطاب (عمر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لیے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ ابوسفیان نے کہا اچھا! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم (اپنے آدمیوں کو) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل (بت کا نام) بلند رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2662  
´کمین (گھات) میں بیٹھنے والوں کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو تیر اندازوں کا امیر بنایا ان کی تعداد پچاس تھی اور فرمایا: اگر تم دیکھو کہ ہم کو پرندے اچک رہے ہیں پھر بھی اپنی اس جگہ سے نہ ہٹنا یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کافروں کو شکست دے دی ہے، انہیں روند ڈالا ہے، پھر بھی اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہیں بلاؤں، پھر اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی اور اللہ کی قسم میں نے مشرکین کی عورتوں کو دیکھا کہ بھاگ کر پہاڑوں پر چڑھنے لگیں، عبداللہ بن جبیر کے ساتھی کہنے لگے: لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2662]
فوائد ومسائل:

دشمن پر حملہ کرنے یا اپنے دفاع کےلئے مجاہدین کوکمین گاہ میں چھپنا یا چھپانا جائز اور نظم جہاد کا ایک اہم حصہ ہوتاہے۔


رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پرواہ نہ کرنے اور مال کی حرص کا نتیجہ شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
جو اگرچہ عارضی تھی۔
اس لئے واجب ہے کہ انسان فرامین رسول ﷺ کو ہرحال میں اولیت اور اولیت دے تاکہ دنیا اور آخرت کی ہزیمت سے محفوظ رہے۔


شرعی امیر کی اطاعت بھی واجب ہے۔
اور سپہ سالار کی منصوبہ بندی کے احکام بلا چون وچرا ماننے چاہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2662   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3039  
3039. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3039]
حدیث حاشیہ:
جنگ احد اسلامی تاریخ کا ایک بڑا حادثہ ہے جس میں مسلمانوں کو جانی اور مالی کافی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
رسول کریمﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیرؓ کے ساتھیوں کو سخت تاکید کی تھی کہ ہم بھاگ جائیں یا مارے جائیں اور پرندے ہمارا گوشت اچک اچک کر کھا رہے ہوں‘ تم لوگ یہ درہ ہمارا حکم آئے بغیر ہرگز نہ چھوڑنا‘ یہ درہ بہت ہی نازک مقام تھا۔
وہاں سے مسلمانوں پر عقب سے حملہ ہوسکتا تھا‘ اگر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے جب میدان مسلمانوں کے ہاتھ دیکھا تو وہ اموال غنیمت لوٹنے کے خیال سے درہ چھوڑ کر بھاگ نکلے‘ اور فرمان رسول اللہﷺ اپنی رائے قیاس کے آگے انہوں نے بالکل فراموش کردیا‘ نتیجہ یہ کہ کافروں کے اس اچانک حملہ سے مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے‘ اور بیشتر مسلمان مجاہدین نے راہ فرار اختیار کی‘ رسول کریمﷺ کے ساتھ صرف ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق‘ علی مرتضیٰ ‘ عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص‘ طلحہ بن عبید اللہ‘ زبیر بن عوام‘ ابوعبیدہ بن جراح‘ خباب بن منذر‘ سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر ؓ باقی تھے۔
ستر اکابر صحابہ شہید ہوگئے۔
جن میں حضرت امیر حمزہؓ کو سید الشہداء کہا جاتا ہے۔
حضرت ابوسفیانؓ جو اس وقت کفار قریش کے لشکر کی کمان کر رہے تھے‘ جنگ کے خاتمہ پر انہوں نے فخریہ مسلمانوں کو للکارا اور یہ بھی کہا کہ مسلمانو! تمہارے کچھ شہداء مثلہ کئے ملیں گے‘ یعنی ان کے ناک کان کاٹ کر ان کی صورتوں کو مسخ کردیا گیا ہے۔
میں نے ایسا حکم نہیں دیا‘ مگر میں اسے برا بھی نہیں سمجھتا۔
مشرکوں نے سب سے زیادہ گستاخی حضرت امیر حمزہ ؓ کے ساتھ کی تھی۔
وحشی نامی ایک غلام نے ان پر چھپ کر وار کیا‘ وہ گر گئے۔
ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے باپ اور بھائی کا مارا جانا یاد کرکے ان کی نعش کا مثلہ کردیا اور ان کا کلیجہ نکال کر چبایا اور ان کی نعش پر کھڑی ہوئی اور فخریہ شعر پڑھے۔
ہبل ایک بت کا نام تھا جو کعبہ کے بتوں میں بڑا مانا جاتا تھا۔
گویا ابوسفیان نے فتح جنگ پر ہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہوا اور اللہ والے مغلوب ہوئے۔
اس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے حقیقت افروز نعرہ أعلی و أجل کے لفظوں میں بلند فرمایا‘ جو اس لئے بلند اور برتر ثابت ہوا کہ بعد میں ہبل اور تمام بتوں کا کعبہ سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ عزوجل کا نام وہاں ہمیشہ کے لئے بلند ہو رہا ہے۔
اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب یوں ثابت کیا کہ عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھ والوں نے اپنے سردار سے اختلاف کیا اور ان کا کہا نہ مانا‘ مورچہ سے ہٹ گئے‘ اس لئے سزا پائی‘ شکست اٹھائی۔
یہیں سے نص صریح کے سامنے رائے قیاس کرنے کی انتہائی مذمت ثابت ہوئی مگر صد افسوس کہ امت کے ایک کثیر طبقہ کو اس رائے و قیاس نے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے‘ نیز افتراق امت کا اہم سبب تقلید جامد ہے جس نے مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں تقسیم کردیا۔
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین نبی انداختند
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3039   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3039  
3039. حضرت براء بن عازب ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے غزوہ احد میں حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کو پچاس تیر اندازوں پر امیر مقرر کیا اور (ان سے) فرمایا: اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمیں نوچ رہے ہیں، تب بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا یہاں تک کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ اور اگر تم دیکھو کہ ہم نے کفار کو شکست دے دی ہے اور انھیں اپنے پاؤں تلے روند ڈالا ہے، تب بھی اپنی جگہ پر قائم رہنا حتیٰ کہ میں تمھیں پیغام بھیجوں۔ چنانچہ مسلمانوں نے کفار کو شکست سے دوچار کردیا۔ حضرت براء بن عازب ؓ کابیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرکین کی عورتوں کو دوڑتے ہوئے دیکھا جن کی پنڈلیاں اور پازیب کھل گئے تھے جو اپنے کپڑے اٹھائے ہوئے بھاگ رہیں تھیں۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ کے ساتھیوں نے کہا: قوم کے لوگو! غنیمت جمع کرو، غنیمت اکھٹی کرو، تمہارے ساتھی غالب آچکے ہیں، اب کس کا انتظار کرتے ہو؟ حضرت عبداللہ بن جبیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3039]
حدیث حاشیہ:

ھبل ایک بت کا نام ہے جوکعبے کے بتوں میں بڑا مانا جاتاتھا، گویا ابوسفیان نے بزعم خویش فتح پرہبل کی جے کا نعرہ بلند کیا کہ آج تیرا غلبہ ہے اور اللہ والے مغلوب ہوگئے ہیں۔
اس کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے حقیقت افروز نعرہ بلند کیا کہ (الله أعلى وأجل)
جو اس ليے بلند وبرتر ثابت ہواکہ بعد میں ہبل اور دیگر تمام بتوں کاکعبے سے خاتمہ ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا نام وہاں ہمیشہ سے بلند ہورہا ہے۔

امام بخاری ؒنے اپنا مدعا یوں ثابت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن جبیر ؓسے ان کے ساتھیوں نے اختلاف کیا اور مورچے سے ہٹ گئے،نتیجے کے طور پر سزاپائی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیاہے:
﴿وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّـهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُم بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاكُم مَّا تُحِبُّونَ ۚ مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنكُم مَّن يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنكُمْ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ ﴿١٥٢﴾ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾ اللہ تعالیٰ نے تم سے اپنا وعده سچا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے۔
یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا اراده آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزش سے درگزر فرما دیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ بڑے فضل والاہے۔
(152)
جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے اور کسی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے، بس تمہیں غم پر غم پہنچا تاکہ تم فوت شده چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف)
پر اداس ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
(آل عمران: 152، 153)

اللہ تعالیٰ نے اس حادثے میں مسلمانوں کو کئی ایک پریشانیوں سے دوچار کیا:
ایک منافقین کے واپس لوٹ جانے کی،دوسری شکست کی،تیسری اپنے شہداء کی،چوتھی اپنے زخمیوں کی،پانچویں رسول اللہ ﷺ کی شہادت کے متعلق جو افواہ پھیلی اورچھٹی اس جنگ کے انجام کی۔
بہرحال نتیجہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے سے جنگی طاقت تباہ ہونے کے بعد واقعی دشمن غالب آجاتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3039