صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
171. بَابُ فَكَاكِ الأَسِيرِ:
باب: (مسلمان) قیدیوں کو آزاد کرانا۔
حدیث نمبر: 3047
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَنَّ عَامِرًا حَدَّثَهُمْ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ مِنَ الْوَحْيِ إِلَّا مَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا أَعْلَمُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ، وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ، قُلْتُ: وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ؟ قَالَ: الْعَقْلُ وَفَكَاكُ الْأَسِيرِ، وأن لا يقتل مسلم بكافر.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ان سے مطرف نے بیان کیا ‘ ان سے عامر نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ‘ آپ حضرات (اہل بیت) کے پاس کتاب اللہ کے سوا اور بھی کوئی وحی ہے؟ آپ نے اس کا جواب دیا۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو (زمین) چیر کر (نکالا) اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں (جو قرآن میں نہ ہو) البتہ سمجھ ایک دوسری چیز ہے ‘ جو اللہ کسی بندے کو قرآن میں عطا فرمائے (قرآن سے طرح طرح کے مطالب نکالے) یا جو اس ورق میں ہے۔ میں نے پوچھا ‘ اس ورق میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے بتلایا کہ دیت کے احکام اور قیدی کا چھڑانا اور مسلمان کا کافر کے بدلے میں نہ مارا جانا (یہ مسائل اس ورق میں لکھے ہوئے ہیں اور بس)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3047  
3047. حضرت ابو جحیفہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی ؓسے پوچھا: کیا کتاب اللہ کے علاوہ بھی وحی کا کچھ حصہ تمھارے پاس موجود ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا!مجھے تو کسی ایسی وحی کا علم نہیں، البتہ فہم و فراست ایک دوسری چیز ہے جو اللہ تعالیٰ قرآن فہمی کے لیے عطا کرتا ہے یا جو اس دستاویز میں ہے۔ میں نے عرض کیا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس میں دیت کے مسائل، قیدی کو رہائی دلانے کی فضلیت اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلےقتل نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3047]
حدیث حاشیہ:
اس سے ان شیعہ لوگوں کا رد ہوتا ہے جو کہتے ہیں معاذ اللہ قرآن کی اور بہت سی آیتیں تھیں جن کو آنحضرتﷺ نے فاش نہیں کیا‘ بلکہ خاص حضرت علی ؓ اور اپنے اہل بیت کو بتلائیں‘ یہ صریح جھوٹ ہے۔
آنحضرتﷺ جب اکیلے بے یارو مددگار مشرکوں میں پھنسے ہوئے تھے اس وقت تو آپ نے کوئی بات چھپائی ہی نہیں‘ اللہ کا پیغام بے خوف و خطر سنا دیا‘ جس میں مشرکین کی اور ان کے معبودوں کی کھلی برائیاں تھیں۔
پھر جب آپ کے جاں نثار و فدائی صدہا صحابہ موجود تھے آپ کو کسی کا کچھ بھی ڈر نہ تھا‘ آپ اللہ کا پیغام کیسے چھپا کر رکھتے۔
اب رہیں وہ روایتیں جو شیعہ اپنی کتابوں میں اہل بیت ؑسے نقل کرتے ہیں تو ان میں اکثر جھوٹ اور غلط اور بنائی ہوئی ہیں۔
ترجمہ باب لفظ ولا یقتلُ مسلم بکافر سے نکلا۔
قسطلانی نے کہا جمہور علماء اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ مسلمان کافر کے بدل قتل نہ کیا جائے گا‘ اور صحیح حدیث سے یہی ثابت ہے لیکن امام ابو حنیفہ ؓنے ایک ضعیف روایت سے جس کو دارقطنی ؒنے نکالا کہ مسلمان ذمی کافر کے بدل قتل کیا جائے گا فتویٰ دیا ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3047   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3047  
3047. حضرت ابو جحیفہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت علی ؓسے پوچھا: کیا کتاب اللہ کے علاوہ بھی وحی کا کچھ حصہ تمھارے پاس موجود ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور جان کو پیدا کیا!مجھے تو کسی ایسی وحی کا علم نہیں، البتہ فہم و فراست ایک دوسری چیز ہے جو اللہ تعالیٰ قرآن فہمی کے لیے عطا کرتا ہے یا جو اس دستاویز میں ہے۔ میں نے عرض کیا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: اس میں دیت کے مسائل، قیدی کو رہائی دلانے کی فضلیت اور یہ کہ کسی مسلمان کو کافر کے بدلےقتل نہ کیا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3047]
حدیث حاشیہ:

شیعہ حضرات حضرت علی ؓ کو "وصي رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم " کہتے ہیں۔
اس حدیث سے ان کی تردید ہوتی ہے کیونکہ ان کا اپنا بیان ہے کہ اس صحیفے میں دیت کے مسائل اور قیدیوں کی رہائی کے احکام ہیں اگر وصی ہوتے تو اس میں وصیت کا بھی ذکر ہوتا۔
بلکہ ان حضرات کا یہ کہنا بھی جھوٹ ہے کہ بہت سی قرآنی آیات ایسی ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے عام لوگوں کو نہیں بتائیں صرف حضرت علی ؓاور اہل بیت کو ان سے آگاہ کیا ہے۔
معاذ اللہ۔

حضرت عائشہ ؓسے بھی اس کی تردید منقول ہے۔
امام بخاری ؓنے اس حدیث سے قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ ثابت کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3047