موطا امام مالك رواية ابن القاسم
ایمان و عقائد کے مسائل

نزول وحی کی کیفیت
حدیث نمبر: 10
458- وبه: عن عائشة أم المؤمنين أن الحارث بن هشام سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، كيف يأتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي، فيفصم عني وقد وعيت ما قال، وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول. قالت عائشة: ولقد رأيته ينزل عليه فى اليوم الشديد البرد فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا.
اور اسی سند کے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض اوقات گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ مجھ پر سخت ہوتی ہے، پھر یہ ختم ہوتی ہے تو میں اسے یاد کر چکا ہوتا ہوں اور بعض اوقات فرشتہ ایک آدمی کی شکل میں آ کر مجھ سے کلام کرتا ہے تو میں وہ یاد کر لیتا ہوں جو وہ بیان کرتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے سخت ٹھنڈے دن میں آپ پر وحی کا نزول دیکھا ہے پھر جب یہ وحی ختم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ پھوٹ رہا ہوتا تھا۔

تخریج الحدیث: «458- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 202/1 , 203 ح 476، ك 15 ب 4 ح 7) التمهيد 112/22، 113 الاستذكار: 445 و أخرجه البخاري (2) من حديث مالك به.»
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2  
´نزول وحی کے مختلف طریقے`
«. . . سَأَل رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الْوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ . . .»
. . . ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ یا رسول اللہ! آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گذرتی ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 2]

تشریح:
انبیاء علیہم السلام خصوصاً حضرت سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے مختلف طریقے رہے ہیں۔ انبیاءکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اور ان کے قلوب مجلّیٰ پر جو واردات یا الہامات ہوتے ہیں وہ بھی وحی ہیں۔ کبھی اللہ کا فرستادہ فرشتہ اصل صورت میں ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کبھی بصورت بشر حاضر ہو کر ان کو اللہ کا فرمان سناتا ہے۔ کبھی باری تعالیٰ و تقدس خود براہ راست اپنے رسول سے خطاب فرماتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں وقتاً فوقتاً وحی کی یہ جملہ اقسام پائی گئیں۔ حدیث بالا میں جو گھنٹی کی آواز کی مشابہت کا ذکر آیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے وحی مراد لے کر آنے والے فرشتے کے پیروں کی آواز مراد بتلائی ہے، بعض حضرات نے اس آواز سے صوت باری کو مراد لیا ہے اور قرآنی آیت «وماكان لبشر ان يكلمه الله الا وحيا اومن ورآي حجابٍ» الخ [الشوریٰ: 51] کے تحت اسے وراء حجاب والی صورت سے تعبیر کیا ہے، آج کل ٹیلی فون کی ایجاد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فون کرنے والا پہلے گھنٹی پر انگلی رکھتا ہے اور وہ آواز جہاں فون کرتا ہے گھنٹی کی شکل میں آواز دیتی ہے۔ یہ تو اللہ پاک کی طرف سے ایک غیبی روحانی فون ہی ہے جو عالم بالا سے اس کے مقبول بندگان انبیاء و رسل کے قلوب مبارکہ پر نزول کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول اس کثرت سے ہوا کہ اسے باران رحمت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید وہ وحی ہے جسے وحی متلو کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جو تاقیام دنیا مسلمانوں کی تلاوت میں رہے گی اور وحی غیر متلو آپ کی احادیث قدسیہ ہیں جن کو قرآن مجید میں الحکمۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہر دو قسم کی وحی کی حفاظت اللہ پاک نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس چودہ سو سال کے عرصہ میں جس طرح قرآن کریم کی خدمت و حفاظت کے لیے حفاظ، قراء، علماء، فضلاء، مفسرین پیدا ہوتے رہے، اسی طرح احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے اللہ پاک نے گروہ محدثین امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ وغیرہم جیسوں کو پیدا کیا۔ جنھوں نے علم نبوی کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک امت ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔ حدیث نبوی کہ اگر دین ثریا پر ہو گا تو آل فارس سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو وہاں سے بھی اسے حاصل کر لیں گے، بلاشک و شبہ اس سے بھی یہی محدثین کرام امام بخاری ومسلم وغیرہم مراد ہیں۔ جنہوں نے احادیث نبوی کی طلب میں ہزارہا میل پیدل سفر کیا اور بڑی بڑی تکالیف برداشت کر کے ان کو مدون فرمایا۔

صد افسوس کہ آج اس چودہویں صدی میں کچھ لوگ کھلم کھلا احادیث نبوی کا انکار کرتے اور محدثین کرام پر پھبتیاں اڑاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی پیدا ہو چلے ہیں جو بظاہر ان کے احترام کا دم بھرتے ہیں اور در پردہ ان کو غیر ثقہ، محض روایت کنندہ، درایت سے عاری، ناقص الفہم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کی خدماتِ جلیلہ کو جو دوام بخشا اور ان کو قبول عام عطا فرمایا وہ ایسی غلط کاوشوں سے زائل نہیں ہو سکتا۔

الغرض وحی کی چارصورتیں ہیں:
➊ اللہ پاک براہ راست اپنے رسول نبی سے خطاب فرمائے۔
➋ کوئی فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر آئے۔
➌ یہ کہ قلب پر القاءہو۔
➍ چوتھے یہ کہ سچے خواب دکھائی دیں۔

اصطلاحی طور پر وحی کا لفظ صرف پیغمبروں کے لیے بولا جاتا ہے اور الہام عام ہے جو دوسرے نیک بندوں کو بھی ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں جانوروں کے لیے بھی لفظ الہام کا استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ «واوحي ربك الي النحل» [النحل: 68] میں مذکور ہے۔ وحی کی مزید تفصیل کے لیے حضرت امام حدیث ذیل نقل فرماتے ہیں: [حدیث مبارکہ نمبر 3 دیکھیں]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 10  
´نزول وحی کی کیفیت`
«. . . 458- وبه: عن عائشة أم المؤمنين أن الحارث بن هشام سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، كيف يأتيك الوحي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أحيانا يأتيني مثل صلصلة الجرس وهو أشده علي، فيفصم عني وقد وعيت ما قال، وأحيانا يتمثل لي الملك رجلا فيكلمني فأعي ما يقول. قالت عائشة: ولقد رأيته ينزل عليه فى اليوم الشديد البرد فيفصم عنه وإن جبينه ليتفصد عرقا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض اوقات گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ مجھ پر سخت ہوتی ہے، پھر یہ ختم ہوتی ہے تو میں اسے یاد کر چکا ہوتا ہوں اور بعض اوقات فرشتہ ایک آدمی کی شکل میں آ کر مجھ سے کلام کرتا ہے تو میں وہ یاد کر لیتا ہوں جو وہ بیان کرتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے سخت ٹھنڈے دن میں آپ پر وحی کا نزول دیکھا ہے پھر جب یہ وحی ختم ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ پھوٹ رہا ہوتا تھا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 10]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ وحی کی کئی قسمیں ہیں مثلاً: براہ راست کلام، پردے کے پیچھے سے کلام یا فرشتے کے ذریعے سے۔ مثلاً دیکھئے: سورۃ الشوریٰ [51] اور ا [لتمهيد 22/113،]
حدیث بالا میں وحی کی بعض اقسام مذکور ہیں۔ نبی کا خواب بھی وحی میں سے ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب کی وجہ سے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے ارادے سے ثابت ہے۔
➋ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے نزول سے بھاری کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔
➌ پاک ہے وہ ذات جس نے مکہ میں اپنا سچا رسول اور آخری نبی بھیجا، جس پر رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ومنقطع ہے۔
➍ مسئلہ معلوم نہ ہو تو عالم سے پوچھ لینا چاہئے۔
➎ فرشتے انسانی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 458