موطا امام مالك رواية ابن القاسم
اوقات نماز کا بیان

اوقات نماز
حدیث نمبر: 79
45- مالك عن ابن شهاب أن عمر بن عبد العزيز أخر الصلاة يوما، فدخل عليه عروة بن الزبير فأخبره أن المغيرة بن شعبة أخر الصلاة يوما وهو بالكوفة. فدخل عليه أبو مسعود الأنصاري فقال: ما هذا يا مغيرة؟ أليس قد علمت أن جبرائيل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. ثم قال: بهذا أمرت. فقال عمر لعروة اعلم ما تحدث به يا عروة أو أن جبرائيل هو الذى أقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة. قال عروة: كذلك كان بشير بن أبى مسعود يحدث عن أبيه. قال عروة: ولقد حدثتني عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس فى حجرتها قبل أن تظهر.
ابن شہاب (زہری) سے روایت ہے کہ ایک دن (خلیفہ) عمر بن عبدالعزیز  رحمہ اللہ نے نماز (پڑھنے) میں تاخیر کی تو ان کے پاس تابعی عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ تشریف لائے پھر انہیں بتایا کہ ایک دن سیدنا  مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں نماز (پڑھنے) میں تاخیر کی تو سیدنا ابومسعود (عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ) ان کے پاس تشریف لائے، پھر فرمایا: اے مغیرہ! یہ کیا ہے؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ  جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، پھر انہوں (جبریل علیہ السلام) نے فرمایا: اس کا آپ کو (یا مجھے) حکم دیا گیا ہے۔  (یہ سن کر) عمر (بن عبدالعزیز رحمہ اللہ) نے عروہ رحمہ اللہ سے کہا: اے عروہ! جان لو کہ تم کیا حدیث بیان کر رہے ہو؟ کیا جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات قائم کر کے بتائے تھے؟ عروہ نے کہا: اسی طرح بشیر بن ابی مسعود اپنے ابا (ابومسعود رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کرتے تھے۔ عروہ رحمہ اللہ نے کہا: کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی (اور میری خالہ) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز پڑھتے تھے اور دیواروں پر دھوپ چڑھنے سے پہلے ان کے حجرے میں ہوتی تھی۔

تخریج الحدیث: «45- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 3/1، 4 ح 1، ك 1 ب 1 ح 1) التمهيد 10/8، الاستذكار: 1، و أخرجه البخاري (521، 522) ومسلم (610/167) من حديث مالك به.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 79  
´نماز کے اوقات اور ان کے فضائل`
«. . . اليس قد علمت ان جبرائيل نزل فصلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . . .»
. . . کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جبریل علیہ السلام نے نازل ہو کر نماز پڑھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 79]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 521، 522، ومسلم 610/167، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو دفعہ بیت اللہ کے پاس نماز کی امامت کرائی۔ انہوں نے پہلی دفعہ ظہر اس وقت پڑھی جب سایہ تسمہ کے برابر (بہت تھوڑا) تھا پھر ایک مثل پر عصر کی نماز پڑھی پھر سورج کے غروب ہوتے ہی مغرب کی نماز پڑھی پر شفق کے غائب ہونے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی پھر صبح صادق ظاہر ہونے کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ دوسری دفعہ ظہر کی نماز ایک مثل پر عصر کی نماز دو مثل پر اور مغرب کی نماز پہلے کی طرح سورج غروب ہوتے ہی پڑھی، عشاء کی نماز ایک تہائی رات گزرنے کے بعد اور فجر کی نماز خوب روشنی میں پڑھی پھر جبریل علیہ السلام نے فرمایا: ان دو وقتوں کے درمیان (پانچ نمازوں کا) وقت ہے۔ [سنن ابي داود: 393 وسنده حسن وقال الترمذي: 149 حسن و صححه ابن خزيمه: 325 و ابن الجارود: 149، 150، والحاكم 197/1 ح 707 وقال النيموي فى آثار السنن: 194 و إسناد حسن]
◄ اس مفہوم کی روایات درج ذیل صحابہ کرام سے بھی ثابت ہیں:
◈ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ [سنن النسائي 249/1، 250 ح 503 وسنده حسن وحسنه البخاري/العلل الكبير للترمذي 203/1 ب 46]
◈ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ [سنن الترمذي: 150، وقال: حديث حسن، سنن النسائي 263/1 ح 527 وإسناده حسن و صححه ابن حبان، الاحسان: 1470، والحاكم 195/1، 196، والذهبي]
◈ سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ [مسند أحمد 30/3 ح 11249، وسنده حسن]
◈ سیدنا ابومسعود الانصاری رضی اللہ عنہ [سنن ابي داود: 394 نحو المعنٰي وهو حديث حسن صحيح و صححه ابن خزيمه: 352 وابن حبان، الموارد: 279 والحاكم 192/1، 193]
◄ امامت جبریل والی یہ حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار 23، نظم المتناثر 49]
➋ اس پر اجماع ہے کہ نماز ظہر کا وقت زوال کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ [الافصاح لا بن هبير 76/1، الاجماع لابن المنذر: 34، مراتب الاجماع لابن حزم ص26]
⟐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم جاری کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ظہر کا وقت ایک ذراع سائے سے لے کر ایک مثل تک رہتا ہے۔ [الاوسط لابن المنذر ر328/2 ث 948 وسنده صحيح]
⟐ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوموسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ کو لکھ کر حکم بھیجا کہ ظہر کی نماز سورج کے زوال پر پڑھو۔ [موطأ مالك رواية يحييٰ 7/1 ح 5، ك 1 ب 1 ح 7 وسنده صحيح]
◄ جن روایات میں آیا ہے کہ جب گرمی زیادہ ہو تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، ان تمام احادیث کا تعلق سفر کے ساتھ ہے جیسا کہ صحیح بخاری [539] کی حدیث سے ثابت ہے۔
⟐ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سایہ ایک مثل ہو جائے تو ظہر کی نماز ادا کرو اور جب دو مثل ہو جائے تو عصر پڑھو [موطأ امام مالك 8/1 ح 9 وسنده صحيح]
◄ اس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز زوال سے لے کر ایک مثل تک پڑھ سکتے ہیں یعنی ظہر کا وقت زوال سے لے کر ایک مثل تک ہے اور عصر کا وقت ایک مثل سے لے کر دو مثل تک ہے۔ دیکھئے: [التعيلق الممجد ص 41 حاشيه 9]
◈ سوید بن غفلہ رحمہ اللہ (تابعی کبیر) نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے مارنے کے لئے تیار ہو گئے مگر یہ گوارا نہ کیا کہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز ظہر اول وقت میں ادا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 323/1 ح 3271 وسنده حسن]
➌ ائمہ ثلاثہ (اور جمہور علماء) کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے۔ دیکھئے کتاب [الام للشافعي 73/1، والا وسط لابن المنذر 329/2]
➍ سنن ابی داود کی ایک روایت میں آیا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (فجر) وفات تک اندھیرے میں رہی اور آپ نے (اس دن کے بعد)کبھی روشنی میں نماز نہیں پڑھی۔ [63/1 ح 394 وهو حديث حسن، والناسخ والمنسوخ للحازمي ص 77 و صححه ابن خزيمة: 352 وابن حبان، الاحسان: 1446، والحاكم 192/1، 193، للحد يث شاهد حسن لذاته عند الحاكم،]
◄ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز فجر روشنی کر کے پڑھنا منسوخ ہے لہٰذا یہ نماز اندھیرے میں ہی پڑھنی چاہئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم فرمایا اور فجر کی نماز اس وقت پڑھو جب ستارے صاف ظاہر اور باہم الجھے ہوئے ہوں۔ [موطأ امام مالك 7/1 ح 6 وسنده صحيح]
● سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا: اور صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ [اسنن الكبري للبيهقي 456/1 وسنده حسن،]
● سیدنا ابوموسیٰ الاشعری اور سیدنا عبد الله بن الزبیر رضی اللہ عنہما فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 320/1 ح 3239، 3240 وسندهما صحيح]
● خلیفہ عمر بن عبدالعزيز الاموی رحمہ اللہ نے حکم جاری کیا کہ فجر کی نماز اندھیرے میں پڑھو۔ [مصنف ابن ابي شيبه 320/1 ح 3237 وسنده صحيح]
➎ صحابہ و تابعین کے مبارک دور میں صحیح سندوں کے ساتھ بیان کردہ احادیث رسول کو حجت سمجھا جاتا تھا۔
➏ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر عالم کو تمام دلائل کا علم ہر حال میں ہو بلکہ عین ممکن ہے کہ بڑے سے بڑے عالم سے بعض دلائل مخفی رہ جائیں۔
➐ اوقات نماز کا تعین الله تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
➑ علمائے حق کی ذمہ داری ہے کہ حتی الوسع ہر وقت کتاب و سنت کی دعوت پھیلانے میں مصروف رہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 45