موطا امام مالك رواية ابن القاسم
سورج گرہن والی نماز کا بیان

سورج گرہن والی نماز کا طریقہ
حدیث نمبر: 183
481- وبه: أنها قالت: أتيت عائشة أم المؤمنين حين خسفت الشمس، فإذا الناس قيام يصلون وإذا هي قائمة، فقلت: ما للناس؟ فأشارت بيدها إلى السماء وقالت: سبحان الله، فقلت: آية؟ فأشارت: أن نعم، قالت: فقمت حتى تجلاني الغشي فجعلت أصب فوق رأسي الماء، فحمد الله رسول الله صلى الله عليه وسلم وأثنى عليه ثم قال: ( (ما من شيء كنت لم أره إلا وقد رأيته فى مقامي هذا حتى الجنة والنار، ولقد أوحي إلى أنكم تفتنون فى القبور مثل أو قريبا من فتنة الدجال) ) -لا أدري أيتهما قالت أسماء- يؤتى أحدكم فيقال له: ما علمك بهذا الرجل؟ فأما المؤمن أو الموقن -لا أدري أى ذلك قالت أسماء- ( (فيقول: هو محمد رسول الله جاءنا بالبينات والهدى، فأجبنا وآمنا واتبعنا، فيقال له: نم صالحا فقد علمنا إن كنت لمؤمنا، وأما المنافق أو المرتاب) ) -لا أدري أيتهما قالت أسماء- ( (فيقول: لا أدري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلته) ) . 
اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس سورج گرہن کے وقت آئی تو لوگ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور وہ بھی کھڑی (نماز پڑھ رہی) تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کو کیا ہوا ہے؟ تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ۔ میں نے کہا: کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے (سر کے) اشارے سے جواب دیا کہ جی ہاں! پھر میں بھی کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی چھا گئی۔ میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: میں نے جو چیز پہلے نہیں دیکھی تھی وہ آج اس مقام پر دیکھ لی ہے حتیٰ کہ میں نے جنت اور جہنم دیکھ لیں اور مجھ پر وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جاتا ہے، دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب۔ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کون سے الفاظ کہے تھے۔ تم میں سے ہر آدمی کو لایا جاتا ہے پھر پوچھا جاتا ہے کہ اس آدمی کے بارے میں تو کیا جانتا ہے؟ مؤمن یا موقن (یقین کرنے والا) کہتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس واضح دلیلیں اور ہدایت لے کر آئے تو ہم نے قبول کیا اور ایمان لائے اور آپ کی اتباع کی۔ راوی کو معلوم نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے مؤمن کا لفظ کہا تھا یا موقن کا۔ پھر اسے کہا جاتا ہے: اچھی طرح سو جا، ہم جانتے تھے کہ تو مؤمن ہے۔ رہا منافق یا شکی آدمی تو وہ کہتا ہے: مجھے پتا نہیں میں تو لوگوں کو ایک بات کرتے ہوئے سنتا تو وہی کہہ دیتا تھا۔ راوی کو یاد نہیں کہ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے منافق کا لفظ کہا: تھا یا شکی کا۔

تخریج الحدیث: «481- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 188/1، 189 ح 448، ك 12 ب 2 ح 4) التمهيد 245/22، 246، الاستذكار: 417، و أخرجه البخاري (184) من حديث مالك به.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 137  
´قبر کا فتنہ`
«. . . ‏‏‏‏عَن أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقول قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذكر فتْنَة الْقَبْر الَّتِي يفتتن فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ هَكَذَا وَزَادَ النَّسَائِيُّ: حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَكَنَتْ - [50] - ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا من فتْنَة الدَّجَّال» . . .»
. . . 0 . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 137]

تخریج:
[صحيح بخاري 1373]،
[سنن النسائي 2064 وسنده صحيح]

فقہ الحدیث:
➊ قبر کا فتنہ مثلاً قبر کا میّت کو بھینچنا اور جھٹکا دینا برحق ہے۔
➋ کفار و منافقین کے لئے عذاب قبر برحق ہے۔ اسی طرح بعض گناہ گار مسلمانوں کو بھی قبر میں عذاب دیا جائے گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے کسی کو معاف فرما کر عذاب قبر سے بچا لے۔
➌ صحابہ کرام چونکہ سب کے سب عادل «كلهم عدول» ہیں، لہٰذا اگر کوئی صحیح و حسن حدیث کے راوی صحابی کا نام معلوم نہ ہو تو یہ مضر نہیں ہے چاہے صحابی سے تابعی کی روایت «عن» سے ہو (بشرطیکہ وہ مدلس نہ ہو اور سماع بھی ثابت ہو) یا تابعی نے سماع کی تصریح کر رکھی ہو۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے۔
➎ جمعہ و عیدین کے علاوہ عام خطبات بھی کھڑے ہو کر دینا بہتر ہے، جیسا کہ احادیث کے عموم سے ظاہر ہے اور عام خطبہ بیٹھ کر دینا بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن ابي داود: 4753 وهو حديث صحيح]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 137