موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نماز کے متفرق مسائل

بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا جدھر بھی رخ کر کے نماز پڑھے جائز ہے
حدیث نمبر: 190
226- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيد وبلال وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر: فسألت بلالا حين خرج: ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: جعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه، وكان البيت يومئذ على ستة أعمدة، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحوا من ثلاثة أذرع.
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کر کے وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔

تخریج الحدیث: «226- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 398/1 ح 921، ك 20 ب 63 ح 193 مختصرا، وعنده جعل عمودا عن يمينه و عمر دين عن يساره)، التمهيد 313/15، الاستذكار:861، و أخرجه البخاري (505) ومسلم (1329) من حديث مالك به.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 190  
´بیت اللہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے والا جدھر بھی رخ کر کے نماز پڑھے جائز ہے`
«. . . 226- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة هو وأسامة بن زيد وبلال وعثمان ابن طلحة الحجبي فأغلقها عليه ومكث فيها. قال عبد الله بن عمر: فسألت بلالا حين خرج: ماذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: جعل عمودا عن يساره وعمودين عن يمينه وثلاثة أعمدة وراءه، وكان البيت يومئذ على ستة أعمدة، ثم صلى وجعل بينه وبين الجدار نحوا من ثلاثة أذرع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ الحجمی رضی اللہ عنہم کعبۃ اللہ میں داخل ہوئے تو دروازہ بند کر کے وہاں ٹھہرے رہے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے تو میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عمل فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوئے کہ بائیں طرف ایک ستون تھا، دائیں طرف دو ستون تھے اور پچھلی طرف تین ستون تھے ان دنوں بیت اللہ کے چھ ستون تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی، آپ کے اور دیوار کے درمیان تین ہاتھ کا فاصلہ تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 190]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 505، ومسلم 1329، من حديث مالك به]
تفقہ
➊ کعبہ کے اندر (جدھر بھی رخ کیا جائے) نماز جائز ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بیت اللہ کے چھ ستوں تھے۔
➌ جن لوگوں کے پاس بیت اللہ کے انتظام کی ذمہ داری ہے اُن کے لئے جائز ہے کہ بیت اللہ کا دروازہ عام لوگوں کے لئے بند رکھیں۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے ورنہ یہ لازم آئے گا کہ مجتہدین کو مقلدین کے زمرے میں شامل کیا جائے۔
➎ جب دونوں راوی ثقہ ہوں تو نفی پر اثبات مقدم ہے۔ مثلاً ایک راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی اور دوسرے راوی نے کہا: آپ نے کعبہ میں نماز پڑھی ہے تو دوسرے راوی کو ہی ترجیح حاصل ہو گی۔
➏ ثقہ کی زیادت مقبول ہے اِلا یہ کہ دوسرے ثقہ راویوں کے خلاف ہو اور تطبیق وغیرہ ممکن نہ ہو سکے۔
➐ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو! یہ ممکن ہے کہ بعض ایسی حدیثیں اُس سے مخفی رہ جائیں جو دوسروں کو معلوم ہوں لہٰذا اندھا دھند ترکِ ادلہ اور غلو فی تعظیم الرجال کا عقیدہ وطرزِ عمل غلط ہے۔
➑ حصولِ علم اور عمل کے لئے سنت کی جستجو میں رہنا چاہئے۔
➒ نماز پڑھتے ہوئے سترہ تین ہاتھ کے فاصلے پر ہونا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 226   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 874  
´کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا بیان۔`
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 874]
اردو حاشہ:
1؎:
راجح بلال رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے،
رہی ابن عباس رضی اللہ عنہما کی نفی،
تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے،
نبی اکرم ﷺ دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی اللہ عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے،
نبی اکرم ﷺ کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم ﷺ ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی،
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 874