صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ -- کتاب: جہاد کا بیان
189. بَابُ الْغُلُولِ:
باب: مال غنیمت میں سے تقسیم سے پہلے کچھ چرا لینا۔
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران میں) فرمایا «ومن يغلل يأت بما غل‏» اور جو کوئی خیانت کرے گا وہ قیامت میں اسے لے کر آئے گا۔
حدیث نمبر: 3073
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ أَبِي حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَامَ فِينَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْغُلُولَ فَعَظَّمَهُ وَعَظَّمَ أَمْرَهُ، قَالَ:" لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رَقَبَتِهِ شَاةٌ لَهَا ثُغَاءٌ عَلَى رَقَبَتِهِ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ وَعَلَى رَقَبَتِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ وَعَلَى رَقَبَتِهِ صَامِتٌ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ أَوْ عَلَى رَقَبَتِهِ رِقَاعٌ تَخْفِقُ، فَيَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغِثْنِي، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ أَبْلَغْتُكَ، وَقَالَ أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ فَرَسٌ لَهُ حَمْحَمَةٌ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ‘ ان سے ابوحیان نے بیان کیا ‘ ان سے ابوزرعہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔ اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘ یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔ یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔ اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3073  
3073. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا: قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔ اوروہ چلا رہا ہو۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میری مدد فرمائیے۔ میں اسے جواب دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیں، اور میں جواب دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا حکم تمھیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر سونے چاندی کے ٹکڑے لادے ہوئے ہوں اور وہ مجھ سے کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ یا اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3073]
حدیث حاشیہ:
فتح اسلام کے بعد میدان جنگ میں جو بھی اموال ملیں وہ سب مال غنیمت کہلاتا ہے۔
اسے باضابطہ امیر اسلام کے ہاں جمع کرنا ہو گا۔
بعد میں شرعی تقسیم کے تحت وہ مال دیا جائے گا۔
اس میں خیانت کرنے والا عنداللہ بہت بڑا مجرم ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں بیان ہوا ہے۔
بکری‘ گھوڑا‘ اونٹ یہ سب چیزیں تمثیل کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔
روایت میں اموال غنیمت میں سے ایک چادر کے چرانے والے کو بھی دوزخی کہا گیا ہے۔
چنانچہ وہ حدیث آگے مذکور ہے۔
قال المھلب ھذا الحدیث وعید لمن أنفذہ اللہ علیه من أهل المعاصي ویحتمل أن یکون الحمل المذکور لا بد منه عقوبة له بذالك لیفتضح علی رؤوس الأشهاد و أما بعد ذلك فإلی اللہ الأمر في تعذیبه أو العفو عنه وقال غیره هذا الحدیث یفسر قوله عز و جل ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ أي یأت به حاملا له علی رقبته (فتح)
یعنی اس حدیث میں وعید ہے اہل معاصی کے لئے۔
احتمال ہے کہ یہ اٹھانا بطور عذاب اس کے لئے ضروری ہو‘ تاکہ وہ سب کے سامنے ذلیل ہو‘ بعد میں اللہ کو اختیار ہے چاہے اسے عذاب کرے‘ چاہے معاف کرے۔
یہ حدیث آیت کریمہ ﴿یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ﴾ (آل عمران: 161)
کی تفسیر بھی ہے کہ وہ عاصی اس خیانت کو قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3073   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3073  
3073. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خطاب کرتے ہوئے خیانت کا ذکر فرمایا: قیامت کے دن میں تم میں سے کسی کو اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری ممیارہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا ہنہنا رہا ہو۔ اوروہ چلا رہا ہو۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میری مدد فرمائیے۔ میں اسے جواب دوں کہ تیرے لیے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو اور وہ کہے: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیں، اور میں جواب دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا حکم تمھیں پہنچا دیا تھا۔ یا اس کی گردن پر سونے چاندی کے ٹکڑے لادے ہوئے ہوں اور وہ مجھ سے کہے۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میری مدد فرمائیے اور میں اسے کہہ دوں کہ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں نے تو اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا۔ یا اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3073]
حدیث حاشیہ:

فتح کے بعد میدان جنگ میں جو بھی مال وغیرہ ملے اسے مال غنیمت کہا جاتا ہے۔
اسے باضابطہ طور پر امیر لشکر کے پاس جمع کرانا چاہیے۔
اس کے بعد شرعی تقسیم کے تحت وہ مجاہدین کو دیا جائے گا۔
اس مال غنیمت میں خیانت کا مرتکب اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم ہوگا۔
حدیث میں مذکورہ اشیاء بطورتمثیل بیان ہوئی ہیں۔
مال غنیمت سے تو ایک چادر چرانے والے کو بھی جہنمی کہا گیاہے۔

اس حدیث سے آیت کریمہ کی بھی تفسیر ہوتی ہے۔
کہ دنیا میں جو بھی خیانت کی ہوگی قامت کے دن ساری مخلوق کے سامنے اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کرلائے گا اور رسول اللہ ﷺ ڈانٹتے ہوئے اسے فرمائیں گے:
میں تیرے متعلق کسی قسم کااختیار نہیں رکھتا۔
میں نے تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیاتھا۔
اب تیرےلیے کوئی عذرقابل قبول نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3073