موطا امام مالك رواية ابن القاسم
حج کے مسائل

دوران طواف میں حطیم کے اندر طواف جائز نہیں
حدیث نمبر: 301
60- وبه عن سالم بن عبد الله أن عبد الله بن محمد بن أبى بكر الصديق أخبر عبد الله بن عمر عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم.“ قالت فقلت: يا رسول الله ألا تردها على قواعد إبراهيم قال لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت. قال: فقال عبد الله بن عمر: لئن كانت عائشة سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أرى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا أن البيت لم يتم على قواعد إبراهيم.
سالم بن عبد اﷲ (بن عمر رحمہ اﷲ) سے روایت ہے کہ عبد اﷲ بن محمد بن ابی بکر الصدیق  رحمہ اﷲ  نے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کو  بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سید ہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے نہیں دیکھا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب تیری قوم قریش مکہ نے کعبہ کی تعمیر کی تو اسے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے چھوٹا کر دیا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے کہا: یا رسول اﷲ! آپ اسے ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر کیوں نہیں لوٹا دیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری قوم کفر سے تازہ تازہ مسلمان نہ ہوئی ہوتی تو میں ایسا کر دیتا۔ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ سن کر فرمایا: اگر عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (حطیم) والے دونوں ارکان(کونوں، دیواروں) جو (طواف میں) صرف اسی لئے نہیں چھوا تھا کہ بیت اﷲ کی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی۔

تخریج الحدیث: «60- متفق عليه، الموطأ (363/1، 364 حه 824، ك 20 ب 33 ح 104، وعنده: لم يتمم) التمهيد 26/10، الاستذكار: 772، و أخرجه البخاري (4484) ومسلم (1333/399) من حديث مالك به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ و فى الأصل: قالج، خطأ مطبعي.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 301  
´دوران طواف میں حطیم کے اندر طواف جائز نہیں`
«. . . رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا ان البيت لم يتم على قواعد إبراهيم . . .»
. . . رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (حطیم) والے دونوں ارکان(کونوں، دیواروں) جو (طواف میں) صرف اسی لئے نہیں چھوا تھا کہ بیت اﷲ کی تعمیر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر نہیں کی گئی تھی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 301]

تخریج الحدیث:
[و اخرجه البخاري 4484، و مسلم 1333/399، من حديث مالك به، من رواية يحيٰ بن يحيٰ و فى الاصل: قالج، خطا مطبعي]

تفقہ:
➊ اگر دو کام جائز ہوں اور کتاب و سنت سے ثابت ہوں تو شر و فساد سے بچنے کے لئے ان میں سے ایک کام چھوڑا جا سکتا ہے۔
➋ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میں حجر (حطیم کے اندر) میں نماز پڑھوں یا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھوں۔ [المؤطا رولية يحيٰ، 364/1 ح، 864 و سنده صحيح]
یعنی حطیم کے اندر نماز پڑھنا بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کے مترادف ہے۔
➌ جو شخص حطیم کے اندر سے طواف کرتا ہے تو قولِ راجح میں اس کا طواف نہیں ہوتا۔
➍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو اس صحیح حدیث کا علم نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے کہ بڑے بڑے علماء سے بھی بعض احادیث مخفی رہ سکتی ہیں۔
➎ جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے تمام دلائل شرعیہ کا احاطہ کر لیا ہے تو ایسا سمجھنا صحیح نہیں ہے۔
➏ بیت اللہ کی تعمیر اول میں اختلاف ہے کہ کس کے ہاتھوں ہوئی۔ قرآن مجید سے یہ ثابت ہے کہ بیت اللہ کی بنیادیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اٹھائی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی؟ تو آپ نے فرمایا: مسجد حرام، پوچھا گیا اس کے بعد کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ، پوچھا گیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس (سال)۔ دیکھئے: [صحيح بخاري ح3425، و صحيح مسلم ح520]
➐ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ایک قول کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین پر قوم نوح اور قوم ابراہیم گھروں میں رہتی تھی تاہم بیت اللہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے۔ دیکھئے: [المختارة للضياء المقدسي 60/2 ح 438،] اور [المستدرك للحاكم 292/2، 293، و سنده حسن]
➑ لوگوں کو بلا ضرورت آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 60