موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نکاح کے مسائل

کنواری کی خاموشی اس کی طرف سے اجازت ہے
حدیث نمبر: 351
381- مالك عن عبد الله بن الفضل عن نافع بن جبير بن مطعم عن عبد الله ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”الأيم أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأذن فى نفسها، وإذنها صماتها.“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت کنواری نہ ہو تو وہ اپنے ولی کی نسبت زیادہ بااختیار ہے اور کنواری لڑکی سے (شادی کی) اجازت مانگی جاتی ہے اور اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔

تخریج الحدیث: «381- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 524/2 , 525، ح 1137، ك 28 ب 2 ح 4) التمهيد 73/19، الاستذكار: 1061، و أخرجه مسلم (1421) من حديث مالك به.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 351  
´کنواری کی خاموشی اس کی طرف سے اجازت ہے`
«. . . 381- مالك عن عبد الله بن الفضل عن نافع بن جبير بن مطعم عن عبد الله ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الأيم أحق بنفسها من وليها، والبكر تستأذن فى نفسها، وإذنها صماتها. . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت کنواری نہ ہو تو وہ اپنے ولی کی نسبت زیادہ بااختیار ہے اور کنواری لڑکی سے (شادی کی) اجازت مانگی جاتی ہے اور اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 351]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1421، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ جس عورت کا خاوند مر جائے یا وہ طلاق شدہ ہو تو نکاح کے وقت اس کی زبانی اجازت ضروری ہے، اس کا صرف خاموش رہنا کافی نہیں ہے۔
➋ نکاح کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے۔
● سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کوئی عورت اپنے ولی صاحب رائے رشتہ دار یا سلطان کے بغیر نکاح نہ کرے [السنن الكبريٰ للبيهقي 111/7، وسنده قوي، روايته سعيد بن المسيب عن عمر رضي الله عنه قوي و باقي السند صحيح]
● سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جوعورت ولی کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے، ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 111/7، وقال: هذا اسناده صحيح، وسند حسن، روايته سفيان الثوري عن سلامته بن كهيل قويته و باقي السند صحيح]
● رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: «أيما امرأة تزوجت بغير إذن وليها فنكاحها باطل۔۔۔» جو عورت بھی ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ [منتقيٰ ابن الجارود 235 حديث: 700 وسنده حسن، المستدرك للحاكم 168/2 ح 2707]
◄ اس حدیث میں سلیمان بن موسیٰ راوی جمہور کے نزدیک ثقہ صدوق ہیں لہٰذا حسن الحدیث ہیں۔ دیکھئے میری کتاب نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام (ص 23-25)
➌ بعض اوقات خاموشی بھی بیان ہوتا ہے إلا یہ کہ کوئی قرینہ اس کی تخصیص کر دے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 381   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1870  
´کنواری اور غیر کنواری دونوں سے شادی کی اجازت لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیر کنواری عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے، اور کنواری عورت سے نکاح کے سلسلے میں اجازت طلب کی جائے گی، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کنواری بولنے سے شرم کرے گی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1870]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہاں (أَیًِم)
سے مراد وہ عورت ہے جس کا پہلے نکاح ہوا تھا، پھر خاوند سے جدائی ہو گئی خواہ خاوند کی وفات کی وجہ سے ہو یا طلاق کی وجہ سے یعنی اس لفظ سے بیوہ اور طلاق یافتہ دونوں مراد ہیں۔
دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔

(2)
نکاح میں لڑکی کی رضامندی بھی ملحوظ رکھی جائے اور سرپرست کی اجازت بھی ضروری ہے۔

(3)
کنواری لڑکی اگر شرم و حیا کی وجہ سے بول کر رضامندی ظاہر نہ کرسکے تو اس کی خاموشی کو رضامندی تصور کر لیا جائے گا، بشرطیکہ دوسرے قرائن سے محسوس نہ ہو کہ یہ خاموشی ناراضی کی وجہ سے ہے۔

(4)
بیوہ یا مطلقہ کی اجازت واضح طور پر کلام کے ذریعے سے ہونا ضروری ہے اس کی خاموشی کو رضامندی سمجھ لینا کافی نہیں۔

(5)
بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کو چاہیے کہ عدت گزرنے کے بعد دوبارہ کسی مناسب جگہ نکاح کر لے۔
اس کے سرپرست کو بھی چاہیے کہ دوسرا نکاح کرنے میں اس سے تعاون کرے۔
بے نکاح بیٹھ رہنا درست نہیں الا یہ کہ عمر اتنی زیادہ ہو گئی ہو کہ دوسرا نکاح کرنا مشکل ہو ....یا کوئی اور رکاوٹ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1108  
´کنواری اور ثیبہ (شوہر دیدہ) سے اجازت لینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ «ثیبہ» (شوہر دیدہ) عورت اپنے آپ پر اپنے ولی سے زیادہ استحقاق رکھتی ہے ۱؎ اور کنواری سے بھی اجازت طلب کی جائے گی اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1108]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لفظ أحق مشارکت کا متقاضی ہے،
گویا غیرکنواری عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں جس طرح حقدارہے اسی طرح اس کا ولی بھی حقدارہے یہ اوربات ہے کہ ولی کی نسبت اسے زیادہ حق حاصل ہے کیونکہ ولی کی وجہ سے اس پر جبرنہیں کیا جا سکتا جب کہ خود اس کی وجہ سے ولی پر جبرکیا جاسکتا ہے،
چنانچہ ولی اگرشادی سے ناخوش ہے اور اس کا منکرہے تو بواسطہ قاضی (حاکم) اس کا نکاح ہوگا،
اس توضیح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ حدیث لانكاح إلا بولي کے منافی نہیں ہے۔

2؎:
اوراگرمنظورنہ ہوتوکھل کربتادینا چاہئے کہ مجھے یہ رشتہ پسند نہیں ہے تاکہ والدین اس کے لیے دوسرا رشتہ منتخب کریں یا اسے مطمئن کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1108   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2100  
´ثیبہ (غیر کنواری عورت) کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کا ثیبہ عورت پر کچھ اختیار نہیں، اور یتیم لڑکی سے پوچھا جائے گا اس کی خاموشی ہی اس کا اقرار ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2100]
فوائد ومسائل:
بیوہ جہاں کا عندیہ دے، ولی کے لئے وہیں نکاح کرنا زیادہ مستحسن ہے بشرطیکہ کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2100