موطا امام مالك رواية ابن القاسم
رضاعت کے مسائل

رضاعی رشتے حقیقی رشتوں کی طرح ہیں
حدیث نمبر: 377
40- وبه عن: ابن شهاب أنه سئل عن رضاعة الكبير فقال: أخبرني عروة بن الزبير أن أبا حذيفة بن عتبة بن ربيعة وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان قد شهد بدرا، وكان تبنى سالما الذى كان يقال له: سالم مولى أبى حذيفة، كما تبنى رسول الله صلى الله عليه وسلم زيد بن حارثة، وأنكح أبو حذيفة سالما وهو يرى أنه ابنه فأنكحه ابنة أخيه فاطمة ابنة الوليد بن عتبة بن ربيعة وهى يومئذ من المهاجرات الأول، وهى يومئذ من أفضل أيامى قريش، فلما أنزل الله تعالى فى كتابه فى زيد بن حارثة ما أنزل، فقال: {ادعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله فإن لم تعلموا آباءهم فإخوانكم فى الدين ومواليكم} رد كل واحد تبني من أولئك إلى أبيه، فإن لم يعلم أبوه رد إلى مواليه. فجاءت سهلة بنت سهيل -وهي امرأة أبى حذيفة وهى من بني عامر بن لؤي- إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله، كنا نرى سالما ولدا وكان يدخل على وأنا فضل وليس لنا إلا بيت واحد، فماذا ترى فى شأنه؟ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما بلغنا: ”أرضعيه خمس رضعات فيحرم بلبنها.“ وكانت تراه ابنا من الرضاعة. فأخذت بذلك عائشة أم المؤمنين فيمن كانت تحب أن يدخل عليها من الرجال. فكانت تأمر أختها أم كلثوم ابنة أبى بكر الصديق رضى الله عنه وبنات أخيها أن يرضعن لها من أحبت أن يدخل عليها من الرجال. وأبى سائر أزواج النبى صلى الله عليه وسلم أن يدخل عليهن بتلك الرضاعة أحد من الناس. وقلن: لا والله ما نرى الذى أمر به رسول الله صلى الله عليه وسلم سهلة بنت سهيل إلا رخصة من رسول الله صلى الله عليه وسلم فى رضاعة سالم وحده. والله لا يدخل علينا بهذه الرضاعة أحد. فعلى هذا من الخبر كان رأي أزواج النبى صلى الله عليه وسلم فى رضاعة الكبير. قال أبو الحسن: الذى اتصل هذا الحديث، قول عروة: فأخذت بذلك عائشة.
عروہ بن الزبیر رحمه الله سے روایت ہے کہ بدری صحابی ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ نے (اپنے غلام) سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کو متبنیٰ بنایا تھا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو متبنیٰ بنایا تھا۔ ابوحذیفہ نے سالم کا نکاح اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کرایا جو کہ پہلی ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے اور اپنے زمانے میں قریش کی افضل ترین عورتوں میں سے تھیں، اس لئے کہ وہ انھیں اپنا بیٹا ہی سمجھتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں حکم نازل فرمایا: انہیں ان کے والدین کے ساتھ پکارو (منسوب کرو) یہ تمھارے رب کے نزدیک زیادہ انصاف والی بات ہے۔ اگر تمہیں ان کے والدین معلوم نہیں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی اور موالی (غلام) ہیں۔ [ الاحزاب: 5 ] ہر ایک نے اپنے متبنیٰ کو اس کے (حقیقی) والد کی طرف لوٹا دیا (منسوب کر دیا) اگر اس کا باپ معلوم نہیں تھا تو اسے موالی کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ابوحذیفہ کی بیوی سہلہ بنت سہیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، وہ بنو عامر بن لوی میں سے تھیں۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم تو سالم کو بیٹا سمجھتے تھے جبکہ میں کام کاج کے لباس میں یا ایک ہی کپڑے میں ہوتی ہوں، ہمارا ایک ہی گھر ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے پانچ دفعہ دودھ پلا دو تو وہ اس دودھ کی وجہ سے حرام ہو جائے گا۔ (رضاعی بیٹا بن جائے گا) وہ اسے رضاعی بیٹا سمجھتی تھیں۔ اس بات کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اختیار کیا۔ وہ مردوں میں سے جسے اپنے پاس آنے کی اجازت دینا چاہتیں تو اپنی بہن ام کلثوم بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ اور بھانجیوں کو حکم دیتیں کہ اسے (اپنا) دودھ پلا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری بیویوں نے رضاعت کے ذریعے سے لوگوں کو اپنے پاس آنے کی اجازت سے انکار کیا اور کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہمارا خیال ہے کہ سہلہ بنت سہیل کا سالم کو رضاعی بیٹا بنانا صرف ان کے لئے خاص اجازت تھی۔ اللہ کی قسم! کوئی آدمی بھی اس رضاعت کے ذریعے سے ہمارے پاس نہیں آ سکے گا۔ بڑی عمر کے آدمی کی رضاعت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی یہی رائے تھی۔ ابولحسن (الراوی) نے کہا: یہ حدیث عروہ کے اس قول کی وجہ سے مرفوع متصل ہو گئی ہے کہ (اس بات کو عائشہ رضی اللہ عنہا نے اختیار کیا)۔

تخریج الحدیث: «40- الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 605/2، 606 ح 1325، ك 30 ب 2 ح 12) التمهيد 249/8، 250، الاستذكار: 1245، و أخرجه النسائي (86/6 ح 3326) و البيهقي (457/7) من حديث مالك به (مختصرا) ورواه عبدالرزاق 458/9، 459 ح 12886) عن مالك عن ابن شهاب عن عروة عن عائشة به وانظر التمهيد (250/8) وله شواهد عند مسلم (1453) وغيره.»