صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
1. بَابُ فَرْضِ الْخُمُسِ:
باب: خمس کے فرض ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3094
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْفَرْوِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرٍ ذَكَرَ لِيذِكْرًا مِنْ حَدِيثِهِ ذَلِكَ فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ، فَقَالَ مَالِكٌ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي أَهْلِي حِينَ مَتَعَ النَّهَارُ إِذَا رَسُولُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَأْتِينِي، فَقَالَ: أَجِبْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَانْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى عُمَرَ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ عَلَى رِمَالِ سَرِيرٍ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فِرَاشٌ مُتَّكِئٌ عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَ: يَا مَالِ إِنَّهُ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ قَوْمِكَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَاقْبِضْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَمَرْتَ بِهِ غَيْرِي، قَالَ: اقْبِضْهُ أَيُّهَا الْمَرْءُ، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَهُ أَتَاهُ حَاجِبُهُ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عُثْمَانَ وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَالزُّبَيْرِ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ يَسْتَأْذِنُونَ، قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا فَسَلَّمُوا وَجَلَسُوا، ثُمَّ جَلَسَ يَرْفَا يَسِيرًا، ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ، قَالَ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمَا فَدَخَلَا فَسَلَّمَا فَجَلَسَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ فِيمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَنِي النَّضِيرِ، فَقَالَ الرَّهْطُ: عُثْمَانُ وَأَصْحَابُهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنَهُمَا وَأَرِحْ أَحَدَهُمَا مِنَ الْآخَرِ، قَالَ عُمَرُ: تَيْدَكُمْ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ" يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ، قَالَ الرَّهْطُ: قَدْ قَالَ ذَلِكَ فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ: قَالَا: قَدْ قَالَ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ: فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ، ثُمَّ قَرَأَ وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ إِلَى قَوْلِهِ قَدِيرٌ سورة الحشر آية 6 فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ قَدْ أَعْطَاكُمُوهُ وَبَثَّهَا فِيكُمْ حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: لِعَلِيٍّ وعَبَّاسٍ أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ، قَالَ عُمَرُ: ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ أَبَا بَكْرٍ فَكُنْتُ أَنَا وَلِيَّ أَبِي بَكْرٍ فَقَبَضْتُهَا سَنَتَيْنِ مِنْ إِمَارَتِي أَعْمَلُ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ جِئْتُمَانِي تُكَلِّمَانِي وَكَلِمَتُكُمَا وَاحِدَةٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ جِئْتَنِي يَا عَبَّاسُ تَسْأَلُنِي نَصِيبَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، وَجَاءَنِي هَذَا يُرِيدُ عَلِيًّا يُرِيدُ نَصِيبَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقُلْتُ: لَكُمَا إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ فَلَمَّا بَدَا لِي أَنْ أَدْفَعَهُ إِلَيْكُمَا، قُلْتُ: إِنْ شِئْتُمَا دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ لَتَعْمَلَانِ فِيهَا بِمَا عَمِلَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا عَمِلَ فِيهَا أَبُو بَكْرٍ وَبِمَا عَمِلْتُ فِيهَا مُنْذُ وَلِيتُهَا، فَقُلْتُمَا ادْفَعْهَا إِلَيْنَا فَبِذَلِكَ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا فَأَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا بِذَلِكَ؟، قَالَ: الرَّهْطُ نَعَمْ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى عَلِيٍّ وعَبَّاسٍ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ هَلْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا بِذَلِكَ، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَتَلْتَمِسَانِ مِنِّي قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ فَوَاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ لَا أَقْضِي فِيهَا قَضَاءً غَيْرَ ذَلِكَ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَادْفَعَاهَا إِلَيَّ فَإِنِّي أَكْفِيكُمَاهَا".
ہم سے اسحاق بن محمد فروی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن انس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے مالک بن اوس بن حدثان نے (زہری نے بیان کیا کہ) محمد بن جبیر نے مجھ سے (اسی آنے والی) حدیث کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے میں نے مالک بن اوس کی خدمت میں خود حاضر ہو کر ان سے اس حدیث کے متعلق (بطور تصدیق) پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ دن چڑھ آیا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ‘ اتنے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک بلانے والا میرے پاس آیا اور کہا کہ امیرالمؤمنین آپ کو بلا رہے ہیں۔ میں اس قاصد کے ساتھ ہی چلا گیا اور عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ایک تخت پر بوریا بچھائے ‘ بورئیے پر کوئی بچھونا نہ تھا ‘ صرف ایک چمڑے کے تکئے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں سلام کر کے بیٹھ گیا۔ پھر انہوں نے فرمایا ‘ مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ میرے پاس آئے تھے ‘ میں نے ان کے لیے کچھ حقیر سی امداد کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تم اسے اپنی نگرانی میں ان میں تقسیم کرا دو ‘ میں نے عرض کیا ‘ یا امیرالمؤمنین! اگر آپ اس کام پر کسی اور کو مقرر فرما دیتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے یہی اصرار کیا کہ نہیں ‘ اپنی ہی تحویل میں بانٹ دو۔ ابھی میں وہیں حاضر تھا کہ امیرالمؤمنین کے دربان یرفا آئے اور کہا کہ عثمان بن عفان ‘ عبدالرحمٰن بن عوف ‘ زبیر بن عوام اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہما اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں انہیں اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات داخل ہوئے اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ یرفا بھی تھوڑی دیر بیٹھے رہے اور پھر اندر آ کر عرض کیا علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو بھی اندر آنے کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں انہیں بھی اندر بلا لو۔ آپ کی اجازت پر یہ حضرات بھی اندر تشریف لے آئے۔ اور سلام کر کے بیٹھ گئے۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ یا امیرالمؤمنین! میرا اور ان کا فیصلہ کر دیجئیے۔ ان حضرات کا جھگڑا اس جائیداد کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نضیر کے اموال میں سے (خمس کے طور پر) عنایت فرمائی تھی۔ اس پر عثمان اور ان کے ساتھ جو دیگر صحابہ تھے کہنے لگے ‘ ہاں ‘ امیرالمؤمنین! ان حضرات میں فیصلہ فرما دیجئیے اور ہر ایک کو دوسرے کی طرف سے بےفکر کر دیجئیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اب عمر رضی اللہ عنہ، علی اور عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم‏» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير‏» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم ہی لوگوں کو دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے (جہاد کے سامان فراہم کرنے میں) خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی اور عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مخلص) جائیداد پر قبضہ کیا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں مصارف کیا کرتے تھے ‘ وہ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی اپنے پاس بلا لیا اور اب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نائب مقرر ہوا۔ میری خلافت کو دو سال ہو گئے ہیں۔ اور میں نے بھی اس جائیداد کو اپنی تحویل میں رکھا ہے۔ جو مصارف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں کیا کرتے تھے ویسا ہی میں بھی کرتا رہا اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے اس طرز عمل میں سچا ‘ مخلص اور حق کی پیروی کرنے والا ہوں۔ پھر آپ دونوں میرے پاس مجھ سے گفتگو کرنے آئے اور بالاتفاق گفتگو کرنے لگے کہ دونوں کا مقصد ایک تھا۔ جناب عباس! آپ تو اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنے بھتیجے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث کا دعویٰ میرے سامنے پیش کرنا تھا۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ آپ اس لیے تشریف لائے کہ آپ کو اپنی بیوی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کا دعویٰ پیش کرنا تھا کہ ان کے والد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کی میراث انہیں ملنی چاہئے ‘ میں نے آپ دونوں حضرات سے عرض کر دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرما گئے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی میراث تقسیم نہیں ہوتی ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ پھر مجھ کو یہ مناسب معلوم ہوا کہ میں ان جائیدادوں کو تمہارے قبضے میں دے دوں ‘ تو میں نے تم سے کہا ‘ دیکھو اگر تم چاہو تو میں یہ جائیداد تمہارے سپرد کر دیتا ہوں ‘ لیکن اس عہد اور اس اقرار پر کہ تم اس کی آمدنی سے وہ سب کام کرتے رہو گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی خلافت میں کرتے رہے اور جو کام میں اپنی حکومت کے شروع سے کرتا رہا۔ تم نے اس شرط کو قبول کر کے درخواست کی کہ جائیدادیں ہم کو دے دو۔ میں نے اسی شرط پر دے دی ‘ حاضرین کہو میں نے یہ جائیدادیں اسی شرط پر ان کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا ‘ بیشک اسی شرط پر آپ نے دی ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘ میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ میں نے اسی شرط پر یہ جائیدادیں آپ حضرات کے حوالے کی ہیں یا نہیں؟ انہوں نے کہا بیشک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ پھر مجھ سے کس بات کا فیصلہ چاہتے ہو؟ (کیا جائیداد کو تقسیم کرانا چاہتے ہو) قسم اللہ کی! جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں میں تو اس کے سوا اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ اگر تم سے اس کا انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر جائیداد میرے سپرد کر دو۔ میں اس کا بھی کام دیکھ لوں گا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3094  
3094. حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں دن چڑھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھا ہواتھا کہ اچانک حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف سے ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا: امیر المومنین آپ کو بلارہے ہیں۔ میں اس کے ساتھ ہی روانہ ہوگیا حتیٰ کہ حضرت عمر ؓط کے پاس حاضر ہوا جبکہ آپ چارپائی کے بان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی گدا وغیرہ بھی نہیں تھا۔ وہ چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا: اے مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے تھے۔ میں نے کچھ تھوڑا سا مال ان میں تقسیم کرنے کاحکم دیا ہے، آپ اس پر قبضہ کرکے ان میں تقسیم کردیں۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!اگرآپ میرے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے توبہتر تھا۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کے بندے!تم اسے اپنے قبضے میں کرکے ان میں تقسیم کردو۔ میں ان کے پاس ہی بیٹھاتھا کہ ان کا دربان یرفا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3094]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حضرت عمر ؓنے اس جائداد کا انتظام حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کے ہاتھوں میں دے دیا تھا۔
پھر بھی یہ حضرات یہ مقدمہ عدالت فاروقی میں لائے‘ تو آپ نے یہ توضیحی بیان دیا۔
رضي اللہ عنهم أجمعین۔
اس طویل روایت میں یہ ملحوظ رہے کہ حضرت فاطمہ ؓ کی ناراضگی ابو بکر ؓ سے وراثت کے مسئلہ پر نہیں ہوئی تھی کیونکہ یہ سب کو معلوم ہوگیا تھا کہ خود آنحضور ﷺ نے اس کی نفی پہلے ہی کردی تھی کہ انبیاءکی وراثت تقسیم نہیں ہوتی اورتمام صحابہ نے اسے مان بھی لیا تھا۔
خود حضرت فاطمہ ؓ‘ حضرت علی ؓ‘ یا حضرت عباس ؓسے بھی کسی موقعہ پر اس کی نفی منقول نہیں۔
بلکہ نزاع صرف اس مال کے انتظام و انصرام کے معاملہ پر ہوا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر ؓنے اس کا انتظام اہل بیت ؓ کے ہاتھ میں دے بھی دیا تھا۔
اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ ؓنے ابو بکر ؓ سے قطع تعلق کرلیا تھا اور اپنی وفات تک ناراض رہی تھیں۔
مشہور روایات میں اسی طرح ہے لیکن بعض روایات سے یہ ثابت ہے کہ جب فاطمہ ؓناراض ہوئیں تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ ان کی خدمت میں پہنچے اور اس وقت تک نہیں اٹھے جب تک راضی نہیں ہوگئیں۔
معتبر مصنفین نے اس کی توثیق بھی کی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کی زندگی خصوصاًحضرت ابو بکر ؓ کی سیرت سے یہی طرز عمل زیادہ جوڑ بھی کھاتا ہے۔
(تفہیم البخاری)
یہاں کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ جب آنحضرت ﷺنے فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور ابو بکر صدیق ؓنے بھی اس حدیث کی بنا پر یہ جائداد حضرت فاطمہ ؓ کے حوالے نہیں کی‘ حالانکہ وہ ناراض بھی ہوئیں تو پھر حضرت عمر ؓ نے حدیث کے خلاف کیوں کیا اور حضرت صدیق ؓکے طریق کو کیوں موقوف کیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر ؓنے اس جائداد کو تقسیم نہیں کیا‘ بلکہ اس کا انتظام کرنے والا حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کو بنا دیا۔
حضرت عمر ؓکے لئے خلافت کے کام بہت ہوگئے تھے‘ ان جائدادوں کی نگرانی کی فرصت بھی نہ تھی۔
دوسرے حضرت علی ؓو عباس ؓ کوخوش کردینا بھی منظور تھا اورحضرت فاطمہ ؓ نے حضرت ابو بکرصدیق ؓ سے تقسیم کی درخواست کی تھی جو حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق ؓنے منظور نہ کی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3094   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3094  
3094. حضرت مالک بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں دن چڑھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھا ہواتھا کہ اچانک حضرت عمر بن خطاب ؓ کی طرف سے ایک قاصد میرے پاس آیا اور کہا: امیر المومنین آپ کو بلارہے ہیں۔ میں اس کے ساتھ ہی روانہ ہوگیا حتیٰ کہ حضرت عمر ؓط کے پاس حاضر ہوا جبکہ آپ چارپائی کے بان پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس پر کوئی گدا وغیرہ بھی نہیں تھا۔ وہ چمڑے کے تکیے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے سلام عرض کیا اور بیٹھ گیا۔ انھوں نے فرمایا: اے مالک! تمہاری قوم کے کچھ لوگ ہمارے پاس آئے تھے۔ میں نے کچھ تھوڑا سا مال ان میں تقسیم کرنے کاحکم دیا ہے، آپ اس پر قبضہ کرکے ان میں تقسیم کردیں۔ میں نے عرض کیا: امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!اگرآپ میرے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے توبہتر تھا۔ انہوں نے فرمایا: اللہ کے بندے!تم اسے اپنے قبضے میں کرکے ان میں تقسیم کردو۔ میں ان کے پاس ہی بیٹھاتھا کہ ان کا دربان یرفا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3094]
حدیث حاشیہ:

حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ سیدنا عمر ؓ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے جن اموال کا فیصلہ کرانے آئے تھے وہ کل مملوکہ املاک کانہ تھا بلکہ وہ خیبر کا کچھ حصہ فدک اور مدینہ طیبہ کے صدقات سے متعلق تھا۔
رسول اللہ ﷺ کی مملوکہ جائیدادیں اس سے کہیں زیادہ تھیں جن کی تفصیل ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔
حضرت عمر ؓنے بھی ان مملوکہ املاک کو تقسیم نہیں کیا بلکہ ان کا انتظام وانصرام ان کے حوالے کیا تھا چونکہ حضرت عمر ؓ کے پاس خلافت سے متعلق کام بہت ہو گئے تھے اس لیے ان جائیدادوں اور جاگیروں کی نگرانی کے لیے ان کے ہاں فرصت نہیں تھی نیز حضرت علی ؓ اور حضرت عباس ؓ کو خوش کرنا بھی مقصود تھا۔

واضح رہے کہ ان حضرات نے متعدد مرتبہ اپنے مطالبات دہرائے تھے ہمارے رجحان کے مطابق اس کی بہترین توجیہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ان کا مطالبہ علی وجہ تملیک تھا کہ انھیں ان جائیدادوں کے مالکانہ حقوق دیے جائیں اور ہمارا قبضہ تسلیم کیا جائے۔
یہ مطالبہ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کے پیش نظر تسلیم نہ کیا گیا کہ حضرات انبیاء کی جائیداد میں وراثت نہیں چلتی بلکہ وفات کے بعد ان کا ترکہ صدقے کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔
دوسری دفعہ ان کا مطالبہ مالکانہ حقوق کے لیے نہیں بلکہ تولیت کے طور پر تھا کہ ہم ان املاک کے متولی بن کر تصرف کریں گے یہ بات کسی حد تک درست تھی۔
حالات کا بھی تقاضا تھا اس لیے حضرت عمر ؓ نے ان حضرات کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور انھیں متولی بنا کر املاک ان کے حوالے کردیں لیکن حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑے منتظم اور مدبر آدمی تھے۔
آمدنی کو بڑے سلیقے سے خرچ کرتے تھے اس کے برعکس حضرت علی ؓ کا ہاتھ کھلا تھا بے دریغ مشترکہ پیداوار سے خرچ کرتے تھےاس شراکت کی وجہ سے آئے دن ان کا جھگڑا رہتا تھا اس لیے آخری مرتبہ شراکت کی تقسیم کا بھی مطالبہ کیا گیا اگر ایسا کردیا جاتا تو پھر وہی مالکانہ تقسیم ہو جاتی۔
گویا حضرت عباس ؓ نے اپنے بھتیجے کی نصف جائیدا د لے لی اور حضرت علی ؓنے اپنی زوجہ محترمہ کا نصف ترکہ وصول کرلیا اس بنا پر حضرت عمر ؓ اس دفعہ تقسیم پر راضی نہ ہوئے اور فرمایا:
تم مل کر کام کرتے رہو تو بہتر بصورت دیگر ان کا قبضہ مجھے واپس کردو تاکہ میں حسب سابق اس کا انتظام کروں۔

امام بخاری ؒ کا غالباً مقصد یہ ہے کہ خمس صرف اس جائیداد میں فرض ہے جو بطور غنیمت حاصل کیا جائے اور کفارسے بہ زور حاصل کیا جائے۔
اس کے برعکس اگر صلح سے کوئی مال حاصل کیا ہے اور فے کے طور پر قبضے میں آئے تو اس میں خمس وغیرہ نہیں ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3094