موطا امام مالك رواية ابن القاسم
حرام و ناجائز امور کا بیان

بالوں کی وگ لگانا حرام ہے
حدیث نمبر: 606
28- وبه: عن حميد أنه سمع معاوية بن أبى سفيان عام حج وهو على المنبر وتناول قصة من شعر كانت فى يد حرسي يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه ويقول: ”إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم.“
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا، منبر پر تشریف فرماتے ہوئے ایک پہرے دار کے ہاتھ سے بالوں کا ایک گچھا لے کر فرمایا: اے مدینے والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بالوں کی وگ لگانے) سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ایسے بال لگائے تو بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «28- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 947/2 ح 1829، ك 51 ب 1 ح 2) التمهيد 216/7، الاستذكار: 1765، و أخرجه البخاري (3468) ومسلم (2127) من حديث مالك به.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 606  
´بالوں کی وگ لگانا حرام ہے`
«. . . يقول: إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ایسے بال لگائے تو بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 606]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3468، ومسلم 2127، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت باعث ہلاکت ہے۔
➋ عام اہل مدینہ کا عمل اگر کتاب و سنت کے خلاف ہو تو حجت نہیں ہے۔
➌ مالک بن ابی عامر الاصحبی المدنی رحمہ اللہ (تابعی کبیر) نے فرمایا:
«ما أعرف شيئاً مما أدركت عليه الناس إلا النداء بالصلوٰة»
میں نے (مدینے کے) لوگوں کو جس پر پایا ہے اس میں سوائے نماز کی اذان کے میں کچھ بھی (کتاب و سنت کے مطابق) نہیں جانتا۔ [موطأ امام مالك رواية يحييٰ 72/1 ح 152، وإسناده صحيح]
➍ بالوں میں وگ لگانا حرام ہے۔
➎ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر علماء کا فرض منصبی ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 28   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2781  
´زائد بالوں کا گچھا اپنے بال میں جوڑنے کی حرمت کا بیان۔`
حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی الله عنہ کو مدینہ میں خطبہ کے دوران کہتے ہوئے سنا: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان زائد بالوں کے استعمال سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور آپ کہتے تھے: جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تو وہ ہلاک ہو گئے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2781]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ مزید بال لگا کر بڑی چوٹی بنانا یہ فتنہ کا باعث ہے،
ساتھ ہی یہ زانیہ و فاسقہ عورتوں کا شعار بھی ہے،
بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب یہ شعار اپنایا تو لوگ بدکاریوں میں مبتلا ہو گئے،
اور نتیجۃ ہلاک و برباد ہو گئے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2781   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4167  
´دوسرے کے بال اپنے بال میں جوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔`
حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جس سال حج کیا میں نے آپ کو منبر پر کہتے سنا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا جو ایک پہرے دار کے ہاتھ میں تھا لے کر کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جیسی چیزوں سے منع کرتے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے جس وقت ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4167]
فوائد ومسائل:
بالوں کو دوسرے بال لگا کر لمبا کرنا حرام ہے، جیسے کہ آج کل وِ گ کا رواج ہے۔
اللہ کی شریعت اور انبیاء علیہم السلام کی کی تعلیم سے بغاوت کی بنا پر قومیں ہلاک کردی جاتی ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4167