صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

جنت کے درخت کا سایہ
حدیث نمبر: 5
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لا يَقْطَعُهَا"
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو (۱۰۰) سال تک چلتا رہے تو بھی اس کو ختم نہ کرے گا۔

تخریج الحدیث: «صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، رقم: 3252، وكتاب التفسير، رقم: 4881 - صحيح مسلم، كتاب الجنة، رقم: 2826، 2827، 2828 - شرح السنة: 207/15، رقم: 437 - مصنف عبدالرزاق، رقم: 20877، عن معمر، عن همام عن أبى هريرة قال:.... - مسند الحميدي، رقم: 1131 - صحيح ابن حبان، رقم: 8411 - البعث والنشور: 268 - مشيخة ابن الجوزي، ص: 182-183 - صفة الجنة لأبي نعيم، رقم: 403 - مسند أبى يعلىٰ، رقم: 5853 - مسند أحمد، رقم: 9243، 9650، 9832، 9870، 9950، 10065، 10259.»
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه 5  
´جنت کے درخت کا سایہ`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لا يَقْطَعُهَا " . . . .»
. . . اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً جنت میں ایک درخت ہے جس کے سائے میں ایک سوار سو (۱۰۰) سال تک چلتا رہے تو بھی اس کو ختم نہ کرے گا . . . [صحيفه همام بن منبه: 5]

شرح حدیث:
مذکورہ حدیث میں جنت میں لگے اس درخت کا ذکر ہے کہ کوئی شخص سواری پر اس کے سائے میں سو (100) سال بھی چلتا رہے جب بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا۔
جنت کا تعلق اخروی جہان سے ہے، وہاں کا نظام، وہاں کا ماحول اور وہاں کے قوانین ہمارے اس زمین والے جہان سے بالکل مختلف ہیں، لہذا اس جہان کے قوانین کو اس جہان کے قوانین پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے۔
جب کوئی آدمی اس کا انکار کرے کہ اتنا بڑا درخت اور اس کا اتنا لمبا سایہ کیسے ہو سکتا ہے؟
درحقیت یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں فرمایا:
«وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» [الواقعة: 30]
اور لمبے پھیلے ہوئے سائے ہوں گے۔
اور جنت کی چوڑائی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
«وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ» [آل عمران: 133]
اور جلدی کرو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف (دوڑو)، جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
اور دوسرے مقام پر فرمایا:
«سَابِقُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ» [الحديد: 21]
دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی کشادگی آسمان و زمین کی کشادگی کی مانند ہے۔
تو جب جنت کی کشادگی آسمان و زمین کے برابر ہے تو پھر یہ بعید نہیں کہ اس جنت میں اتنا بڑا درخت ہو کہ جس کا سایہ سو (100) سال سواری دوڑانے کے بعد بھی ختم نہ ہو۔
یہی حدیث صحیح بخاری میں برقم (3252) موجود ہے، اور اس کے آخر میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَاقْرَؤُا إِنْ شِئْتُمْ وَظِلٍّ مَّمْدُودٍ» [الواقعه: 30]
اور اگر چاہو تو پڑھ لو......، اور لمبے پھیلے ہوئے ساحے ہوں گے۔
حدیث کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم درحقیقت اس آیت کریمہ کی تفسیر فرما رہے ہیں کہ لمبے پھیلے ہوئے سایے ہوں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کی لمبائی بیان کر دی، اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وظیفہ تھا کہ قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کرتے اور اس کے مبہمات اور مجملات کی وضاحت فرماتے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
«وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ» [النحل: 44]
اور ہم نے آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن مجید) کو نازل کیا ہے کہ آپ اس کی وضاحت کر دیں۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم قرآن کے شارح اور مفسر ہیں۔ لہذا جیسا کہ قرآن مجید قطعی الثبوت ہے، ایسے ہی حدیث رسول علی صاحبہا الصلوة والسلام بھی قطعی الثبوت ہے، اور انکار حدیث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 80   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4335  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں ایک درخت ہے، اس کے سائے میں سوار سو برس تک چلتا رہے گا لیکن وہ ختم نہ ہو گا، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «وظل ممدود» جنت میں دراز اور لمبا سایہ ہے (سورة الواقعة: 3)۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4335]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
   جنت میں دھوپ نہیں ھو گی لیکن درختوں کا وجود بھی ایک نعمت ہے جس سے منظر خشگوار ہوتا ہے۔
جنت کا ایک ایک درخت اتنا بڑا ہو گا اور اس کی شاخوں کا پھیلا ؤں اس قدر ہو گا کہ دنیا کے لحاظ سے ہزاروں میل پہ محیط ہو گا۔
اس سے جنت کی وسعت کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4335