صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

فرشتون کی نمازی کے لیے دعا
حدیث نمبر: 9
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَلائِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلاهُ الَّذِي صَلَّى فِيهِ، وَتَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ مَا لَمْ يُحْدِثْ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تم میں سے کوئی اپنے مصلیٰ پر جہاں اس نے نماز پڑھی تھی، بیٹھا رہے اور وہ بےوضو نہ ہو، تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں: اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الأذان، رقم: 959، وكتاب البيوع، رقم: 2119، وكتاب بدء الخلق، رقم: 32290، 4717 - صحيح مسلم، رقم: 1506 - مصنف عبدالرزاق: 580/1 - مسند أحمد: 32/16، رقم: 7/8106، حدثنا عبدالرزاق بن همام: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا به أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - شرح السنة: 369/2 - مؤطا مالك: 9، 117، كتاب قصر الصلاة فى السفر (18) باب انتظار الصلاة والمشي إليها.»
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   9  
´فرشتون کی نمازی کے لیے دعا`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تم میں سے کوئی اپنے مصلیٰ پر جہاں اس نے نماز پڑھی تھی، بیٹھا رہے اور وہ بےوضو نہ ہو، تو فرشتے اس کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہتے ہیں: اے اللہ! اسے بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 9]
شرح الحدیث:
فرشتے تم میں سے ہر ایک شخص کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں:
دعا کرنے والے فرشتوں کے متعلق بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ خاص فرشتے مراد ہیں، جن کا وظیفہ صرف دعا کرنا ہی ہے۔ بعض لوگ ان سے مراد کراماً کاتبین لیتے ہیں۔ جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ ہر فرشتہ ہی مراد ہو سکتا ہے کیونکہ ملائکہ پر (الف، لام) استغراق کا ہے جو عموم کا فائدہ دے رہا ہے. (عمدة القاری: 18/4)
اور "تُصَلِّیْ" کا معنی ہے، بخشش کی دعا کرتے ہیں، ویسے تو "صَلَاةٌ" کے کئی معانی ہیں۔ جن میں سے اہم یہ ہیں:
1) رحمت نازل کرنا۔ جب صلاة کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ وَمَلَائِكَتُهُ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ
(الاحزاب: 43)
"وہی الله ہے جو تم پر رحمت نازل فرماتا ہے، اور اس کے فرشتے (تمہارے لیے دعا کرتے ہیں) تاکہ تمہیں (کفر و شرک) کی تاریکیوں سے نکال کر روشنی (اسلام) کی طرف لے آئے۔ "

2) الله تعالیٰ سے اہل ایمان کے حق میں رحمت اور استغفار کی دعا کرنا۔ یہ معنی تب ہوتا ہے، جب اس کی نسبت فرشتوں کی طرف ہو۔ جیسا کہ محل استدلال حدیث کے الفاظ ہیں: ((اَلْمَلَائِکَةُ تُصَلِّیْ عَلَی أَحَدِکُمْ...........))
"فرشتے تم میں سے ہر شخص کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔ "

3) درود بھیجنا۔ جب اس کی نسبت آدمیوں کی طرف ہو، فرمان باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب: 56)
"اے ایمان والو! تم بھی اس پیغمبر پر درود اور سلام بھیجو، سلام بھیجنا۔ "

((مَا دَامَ فِي مُصَلَّاہُ الَّذِیْ صَلَّی فِیْهِ))
"جب تک کہ وہ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ پر جہاں اس نے نماز پڑھی تھی (بیٹھا) رہے۔ "
اس بارے میں یہ بھی احتمال ہے کہ خاص وہی جگہ مراد ہو جہاں نماز پڑھی تھی، لہذا اگر آدمی دوسری جگہ منتقل ہوا تو اس کے لیے یہ ثواب اور فضیلت نہیں ہے۔ اس معنی کی تائید صحیح مسلم اور سنن أبو داؤد کے لفظ کرتے ہیں
((مَا دَامَ فِي مُصَلَّاہُ الَّذِیْ صَلَّی فِیْهِ)) "کہ جب تک وہ اس جگہ پر بیٹھا رہے جس جگہ پر اس نے نماز پڑھی تھی۔ "
اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد جمیع مسجد ہو جس میں اس نے نماز پڑھی ہے، اور یہ بات زیادہ قوی ہے جس کی دلیل روایت کے یہ لفظ ہیں: ((مَا دَامَ فِي الْمَسْجِدِ))
"جب تک وہ مسجد میں رہتا ہے۔ " (ارشاد الساری: 31/2)
بہرحال اس سے مراد مسجد ہے۔ اس بات کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے:
((فإن احدكم إذا توضا فاحسن واتى المسجد لا يريد إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفعه الله بها درجة وحط عنه خطيئة حتى يدخل المسجد، وإذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت تحبسه وتصلي يعني عليه الملائكة ما دام في مجلسه الذي يصلي فيه، اللهم اغفر له اللهم ارحمه ما لم يحدث فيه))
(صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم: 477)
"جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔ اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں «اللهم اغفر له، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏اللهم ارحمه» اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ جب تک کہ ریح خارج کر کے (وہ فرشتوں کو) تکلیف نہ دے۔ "

فرشتے دعا کرتے ہیں، اے الله! اس کو بخش دے، اے الله! اس پر رحم کر:
اس دعا کے یہ الفاظ الله تعالیٰ کے اس فرمان کے عین مطابق ہیں:
الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا (المؤمن: 7)
"جو فرشتے عرش اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو فرشتے اس کے گرد جمع ہیں، یہ سب اپنے رب کی پاکی بیان کرتے ہیں، اور اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ "
حافظ ابن حجر رحمة الله عليه فرماتے ہیں: کہ ان کے استغفار طلب کرنے کا راز یہ ہے کہ فرشتے بنی آدم کو گناہ کرتے دیکھتے ہیں، اور رب کی اطاعت کرنے میں کوتاہی برتتا دیکھ کر ان کے لیے استغفار کرتے ہیں، کیونکہ مفسدت کو ہٹانا جلب منفعت سے اولٰی ہے، لہذا فرشتے یہی دعا کرتے ہیں کہ ((اَلّٰھُمَّ ارْحَمْهُ) "اے الله! اس پر رحم کر."
(ملحض از فتح الباری: 143/2)

جب تک وہ بے وضو نہیں ہوتا:
تو فرشتے جہاں بندے کے گناہوں کی معافی کی دعا کرتے ہیں، وہ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اے الله! اس کے ساتھ جو تیرے احسانات ہیں ان میں مزید اضافہ فرما۔

مغفرت اور رحمت کے درمیان فرق:
مغفرت اور رحمت کے درمیان فرق یہ ہے کہ مغفرت کا معنی ہے گناہوں کو معاف کرنا، اور ان پر پردہ ڈالنا، جب کہ رحمت کا معنی ہے احسانات و انعامات اور اکرام میں اضافہ کی دعا کرنا۔

حدیث سے مستبط مسائل:
اس حدیث سے درج ذیل مسائل اخذ کیے جاتے ہیں:
1)
بعض علماء کا کہنا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں، تو وہ نماز پڑھ کر اپنے مصلی پر بیٹھا رہے یا کم از کم مسجد میں رہے، اور دوسری نماز کا انتظار کرے اس وجہ سے فرشتے اس کے لیے دعائے استغفار کریں گے، اور ان کی دعا مقبول ہوگی، کیونکہ وہ استغفار اپنی مرضی سے نہیں، بلکہ الله کے حکم سے کرتے ہیں: فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى (الأنبیاء: 28)
"اور نہیں وہ (فرشتے) سفارش کرتے مگر الله کی مرضی سے۔ "

2) اس حدیث میں مسجد میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت کا ذکر ہے۔

3) مسجد میں بے وضو ہونے سے مسجد میں بیٹھنے کی فضیلت سے آدمی محروم ہو جاتا ہے، ساتھ فرشتوں کی استغفار اور رحمت کی دعا بھی بند ہو جاتی ہے۔

4) مسجد میں بے وضو آدمی بیٹھ سکتا ہے۔ ابو الدردا رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ: ((أَنَّهُ خَرَجَ مِنَ المَسْجِدِ فَبَالَ، ثُمَّ دَخَلَ فَتَحَدَّثَ مَعَ أَصْحَابِهٖ وَلَمْ يَمَسَّ مَآءً)) "وہ مسجد سے نکلے، پیشاب کیا، اور پھر مسجد میں آکر اپنے ساتھیوں سے باتوں میں مشغول ہوگئے اور پانی کو چھوا تک نہیں (یعنی وضو نہیں کیا)"
سیدنا علی رضی الله عنہ، عطاء، ابراہیم نخعی، اور ابن جبیر رحمہم الله سے بھی یہی مروی ہے کہ بے وضو آدمی مسجد میں بیٹھ سکتا ہے۔ (عمدة القاری: 18/4)
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 9