صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

نماز میں آمین کہنے پر سابقہ گناہوں کی معافی
حدیث نمبر: 10
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِينَ وَالْمَلائِكَةُ فِي السَّمَاءِ آمِينَ، فَوَافَقَ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آمین کہے، اور فرشتوں نے بھی (اسی وقت) آسمان میں (آمین کہی) اس طرح ایک کی آمین دوسرے کی آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الصلوٰة، باب التسميع والتحميد والتأمين، رقم: 410/75، حدثنا محمد بن رافع، قال: حدثنا عبدالرزاق، قال: حدثنا معمر عن همام بن منبه، عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم بمثله.... - صحيح بخاري، رقم: 781، 6402 - مصنف عبدالرزاق: 97/2، 98 - مسند أحمد: 32/16، برقم: 8/8107 - السنن الكبرىٰ للبيهقي: 55/1، 56 - مؤطا مالك: 87/1-88، كتاب الصلوٰة، باب ما جاء فى التأمين خلف الإمام، رقم: 45-46.»
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   10  
´نماز میں آمین کہنے پر سابقہ گناہوں کی معافی`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آمین کہے، اور فرشتوں نے بھی (اسی وقت) آسمان میں (آمین کہی) اس طرح ایک کی آمین دوسرے کی آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 10]
شرح الحدیث:
جب تم میں سے کوئی ایک آمین کہے:
مراد سورة فاتحہ کے بعد، جب بندہ نماز میں ہو چاہے، امام ہو یا مقتدی، کیونکہ حدیث میں لفظ مطلق ہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے:
«إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ» [صحيح مسلم، كتاب الصلاة، رقم: 410]
"جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں آمین کہے۔ "
معلوم ہوا کہ یہ فضیلت اس شخص کے لیے ہے جو نماز میں ہو، غیر نماز میں نہیں۔ دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ امام ہی آمین کہے اور اس کی آمین سن کر مقتدی کہے، تو اس کی آمین فرشتوں سے موافقت کرے گی کیونکہ حدیث کے الفاظ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آدمی چاہے اکیلا نماز پڑھ رہا ہو، اور سری (آہستہ آواز سے) آمین ہی کیوں نہ کہے، تو اس کی آمین فرشتوں کی آمین سے موافقت کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ سورة فاتحہ کے خاتمہ پر ہر فرشتہ بھی آمین کہتا ہے۔ سری میں پست آواز سے اور جہری میں بلند آواز سے۔ پس جس نمازی کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اس کا بیڑا پار ہوگیا۔

اور فرشتے آسمانوں میں آمین کہہ دیں:
ان فرشتوں سے مراد کون سے فرشتے ہیں؟ ان سے مراد حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں، اور وہ فرشتے جو ان کے علاوہ آسمان میں ہیں۔ جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے اور اس کی مؤید روایت "سنن دارمی" میں بھی موجود ہے، حدیث کے لفظ یوں ہیں:
«فَقَالَ مَنْ خَلْفَهُ آمِيْن، فَوَافَقَ ذَلِكَ أَهْلَ السَّمَآءِ.» (سنن دارمی, رقم: 1281)
"پس اس (امام) کے پیچھے والے بھی آمین کہیں، تو یہ آمین کہنا (اگر) آسمان والوں سے ٹکرا گیا۔ "
«اَلْمَلَائِكَةُ» پر "الف لام" استغراق کے لیے ہے جس کا معنی یہ ہے کہ محافظ فرشتے آمین کہتے ہیں، اور آسمانوں پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ جن روایات میں آسمان والے فرشتوں کی تخصیص ہے تو وہ دوسرے فرشتوں کی نفی نہیں کرتی۔

پس اس طرح ایک کی آمین دوسرے کی آمین سے مل گئی:
موافقت سے مراد قول و زمانہ میں موافقت ہے کہ جس وقت میں فرشتے آمین کہیں، اسی وقت بندہ بھی آمین کہے اور دونوں کی آمین کی آواز ایک ہی وقت میں ہو۔ (ارشاد الساری: 100/2)
حافظ ابن حجر نے ابن منیر کا قول نقل کیا ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے: "دراصل بندوں کا فرشتوں سے قول و زبان میں موافق ہونا، اس کی حکمت یہ ہے کہ مقتدیوں کو بیدار رکھا جائے تاکہ وہ نماز میں غفلت نہ برتیں، کیونکہ فرشتے غافل نہیں ہوتے، وہ وقت پر آمین کہتے ہیں، پس اسی کی آمین اس سے موافقت کرے گی جو بیدار ہوگا۔ "
(فتح الباری: 265/2)

اس شخص کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں:
حدیث کے ظاہر سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، لیکن خارجی (دوسرے) دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے جب تک کہ جس بندے کا حق ہے اس سے معاف نہ کروایا جائے۔
حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں: "اس سے مراد صغیرہ گناہ ہیں کہ صغیرہ تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں نہ کہ کبیرہ۔ " اسی وجہ سے «مِنْ ذَنْبِهٖ» میں «مِنْ» تبعیضیہ ہے نہ کہ بیانہ۔ لہذا حدیث کا ترجمہ اس طرح ہوگا کہ "اس کے بعض گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ " (فتح الباری: 265/2)

تتمه: (1)..... اس حدیث سے جہاں "آمین" کہنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے، وہاں پر امامیہ فرقے کی اس بات کا بھی ردّ ہوگیا جو کہتے ہیں کہ "آمین" کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے کیونکہ یہ لفظ "آمین" نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ذکر ہے۔
(2)..... اور ان بدعتیوں کا بھی ردّ ہو جاتا ہے کہ جو "آمین" کہنے میں کوئی فضیلت نہیں سمجھتے۔
(3)..... اور جہری نمازوں میں امام و مقتدی کو اونچی آواز سے آمین کہنا چاہیے، آمین بالجہر کئی ایک احادیث سے ثابت ہے جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:

آمین بالجہر کا ثبوت:
(1) سیدنا وائل بن حجر رضی الله عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سنا:
«قرأ << غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِيْن >> فقال آمين ومد بها صوته»
(سنن ترمذی، رقم: 248 - سنن دارمی: 284/1 - سنن دار قطنی: 333/1 - سنن الکبریٰ، للبیھقی: 57/1 - مصنف ابن ابی شیبہ: 425/2 - البانی رحمه الله نے اسے "صحیح" کہا ہے)
"آپ نے {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْن} پڑھا اور آمین کے ساتھ اپنی آواز کو لمبا کیا۔ "
سنن ابو داؤد میں «وَمَدَّ بِهَا صَوْتَهُ» کی جگہ «رَفَعَ بِهَا صَوْتَهُ» آتا ہے، یعنی "آپ نے اپنی آواز کو بلند کیا۔ " (سنن ابو داود، رقم: 932، البانی رحمه الله نے اسے "صحیح" کہا ہے)

(2) «امن ابن الزبير ومن وراءه حتى إن للمسجد للجة» (صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب جھر الامام بالتأمین، قبل الحدیث: 780 - مسند الشافعی، رقم: 212/15 - سنن الکبریٰ، للبیھقی: 59/2)
"سیدنا ابن زبیر رضی الله عنہ اور ان کے مقتدیوں نے اس قدر بلند آواز سے آمین کہی کہ مسجد گونج گئی۔ "

(3) سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«ما حسدتكم اليهود على شيء، ما حسدتكم على السلام والتامين»
(سنن ابن ماجہ، رقم: 856 - مسند أحمد: 6/ 134-135 - سنن الکبریٰ، للبیھقی: 56/2 - صحیح ابن خزیمه، رقم: 574 - سلسلة الصحیحة، رقم: 691)
"یہودی جس قدر آمین اور سلام پر حسد کرتے ہیں اس قدر کسی چیز پر حسد نہیں کرتے۔ "

(4) عطاء (تابعی رحمة الله علیه امام ابو حنیفہ رحمة الله علیه کے استاد) فرماتے ہیں: "میں نے مسجد حرام میں دو سو (200) صحابہ کرام رضی الله عنہم کو پایا، جب امام «وَلَا الضَّآلِّيْن» کہتا تو سب صحابہ بلند آواز سے آمین کہتے تھے۔ "
(سنن الکبریٰ، للبیھقی: 59/2 - صحیح ابن حبان، رقم: 1996, 1997 - ابن حبان نے اسے "صحیح" کہا ہے)
«وفي هذا كفاية لمن له دارية»
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 10