صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

قربانی کے جانور پر سواری کی اجازت
حدیث نمبر: 11
وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَدَنَةً مُقَلَّدَةً، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ارْكَبْهَا"، فَقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" وَيْلَكَ ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ ارْكَبْهَا"
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک آدمی قربانی کے جانور کو اس کے گلے میں پٹہ ڈالے پیدل ہانکے چلا جا رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اس پر سوار ہو جا، اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کا جانور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے! اس پر سوار ہو جا، تجھ پر افسوس ہے! اس پر سوار بھی ہو جا۔

تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الحج، باب جواز ركوب البدنة المهداة لمن احتاج إليها، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر، عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال....، رقم: 3208، 3210 - صحيح بخاري، رقم: 1689، 1690، 2755، 6160 - مسند أحمد: 33/16، رقم: 9/8108 - سنن نسائي، رقم: 2801 - سنن أبوداؤد، رقم: 1760 - سنن ترمذي، رقم: 911، عن أنس - شرح السنة: 195/7-196، رقم: 1955 - مؤطا، ص: 246 (19)، كتاب الحج (45)، باب ما يجوز من الهدي - السنن الكبرىٰ للبيهقي: 236/5، كتاب الحج، باب ركوب البدنة إذا اضطر إليه.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 343  
´قربانی والے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے`
«. . . 350- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا يسوق بدنة، فقال: اركبها فقال: يا رسول الله، إنها بدنة، فقال: اركبها فقال: يا رسول الله، إنها بدنة، فقال: ويلك فى الثانية والثالثة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی دیکھا جو قربانی کا جانور لے کر (پیدل) جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ قربانی کا جانور ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! یہ قربانی کا جانور ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری دفعہ فرمایا: تمہاری خرابی ہو (اس پر سوار ہو جاؤ)۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 343]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1689، ومسلم 1322، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
➋ حدیث حجت ہے۔
➌ قربانی والے جانور پر بوقتِ ضرورت سواری جائز ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت میں خرابی ہی خرابی ہے۔
➎ حج کے لئے پیدل اور سوار ہو کر دونوں طرح جانا جائز ہے۔
➏ اپنے آپ کو شرعی عذر کے بغیر مشقت میں ڈالنا جائز نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 350   
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   11  
´قربانی کے جانور پر سواری کی اجازت`
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ایک آدمی قربانی کے جانور کو اس کے گلے میں پٹہ ڈالے پیدل ہانکے چلا جا رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اس پر سوار ہو جا، اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ قربانی کا جانور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھ پر افسوس ہے! اس پر سوار ہو جا، تجھ پر افسوس ہے! اس پر سوار بھی ہو جا۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 11]
شرح الحدیث:
اس حدیث سے درج ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں:
1- فتویٰ یا کسی بھی بات کو سمجھانے اور موکد کرنے کے لیے بار بار دھرایا جا سکتا ہے، کیونکہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے 2 یا 3 مرتبہ فرمایا: ((وَيْلَكَ اِرْكَبْهَا)) "تجھ پر افسوس ہے سوار ہو جا."
2- بہتر یہ ہے کہ حکم کی فورا تعمیل کی جائے، اور قاعدہ بھی یہی ہے کہ ((اَلْأَمْرُ لِلْفَوْرِ)) "امر فی الفور کام کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ "
3- اور جو کوئی حکم کی تعمیل میں دیر کرے، اسے ادب سکھانا بھی ثابت ہے، نبی صلی الله علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ آدمی اونٹ پر ایک مرتبہ کہنے سے سوار نہیں ہوا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے دو مرتبہ ڈانٹا، اور کہا: ((وَيْلَكَ)) "تجھ پر افسوس ہے."
4- جب کوئی شخص کسی کے لیے کسی کام میں مصلحت دیکھے تو اس کی طرف اس کی رہنمائی کرنے میں بالکل دیر نہ کرے، جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کیا۔
5- اور علامت کے طور پر جانوروں کے گلے میں پٹہ بھی ڈالا جا سکتا ہے۔
6- اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حاجی اپنے قربانی کے جانور مثلاً اونٹ وغیرہ پر بوقت ضرورت سوار ہو کر حج کا سفر کر سکتا ہے۔ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا علی رضی الله عنہ سے سوال کیا گیا:
((هَلْ يَرْكَبُ الرَّجُلُ هَدِيَّته؟ فَقَالَ: لَا بَأْسَ، قَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمُرُّ بِالرِّجَالِ يَمْشُوْنَ فَيَأْمُرُهُمْ بِرُكُوْبِ هَدِيَّتِهِمْ.))
"کیا کوئی شخص قربانی کے جانور پر سوار ہو سکتا ہے؟ تو آپ رضی الله عنہ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں، یقیناً نبی صلی الله علیہ وسلم پیدل چلنے والے لوگوں کے پاس سے گزرتے تھے تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو ان کے قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیتے۔ "
بوقت مجبوری کوئی بھی شخص قربانی کے جانور پر سوار ہوگا وگرنہ نہیں، اور جب ضرورت پوری ہو جائے تو آدمی سواری سے اتر جائے۔ صحیح مسلم میں ہے:
((اِرْكَبْهَا بِالْمَعْرُوْفِ إِذَا اُلْجِئْتَ إِلَيهَا حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا)) (صحیح مسلم: 3214)
"جب تم مجبور ہو تو اچھے طریقے سے اس پر سوار ہو جاؤ، اس وقت تک کہ تمہیں کوئی دوسری سواری نہ ملے۔ "
مذکورہ حدیث کے مفہوم سے واضح ہوتا ہے کہ جب دوسری سواری مل جائے تو اس پر سوار نہیں ہو سکتے۔
ابراہیم نخعی رحمة الله علیہ کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ تھک جاتے تو تھوڑی دیر کے لیے سوار ہوجاتے اور جب تھکان دور ہو جاتی تو اس سے اتر جاتے۔ (عمدة القاری: 8/ 192-193)
زمانہ جاہلیت میں عرب لوگ سائبہ وغیرہ جو جانور مذہبی نیاز نذر کے طور پر چھوڑ دیتے۔ اور ان پر سوار ہونا معیوب جانا کرتے تھے۔ قربانی کے جانوروں کے متعلق بھی جو کعبہ میں لے جائے جائیں ان کا ایسا ہی تصور تھا۔ اسلام نے اس غلط تصور کو ختم کیا، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ادب سکھاتے ہوئے حکم دیا کہ اس پر سواری کرو تاکہ راستہ کی تھکن سے بچ سکو۔ قربانی کے جانور ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے معطل کرکے چهوڑ دیا جائے، اسلام اسی لیے دین فطرت ہے کہ اس نے قدم قدم پر انسانی ضروریات کو ملحوظ نظر رکھا ہے اور ہر جگہ عین ضروریات انسانی کے تحت احکامات صادر کیے ہیں۔ خود عرب میں اطراف مکہ سے جو لاکھوں حاجی حج کے لیے مکہ شریف آتے ہیں ان کے لیے یہی احکام ہیں۔ آج کل باقی دور دراز اسلامی ممالک سے آنے والوں کے لیے ریل، موٹر گاڑیاں، بحری و ہوائی جہاز موجود ہیں۔ یہ محض الله کا فضل ہے کہ آج کل سفر حج بے حد آسان ہو گیا ہے، پھر بھی کوئی دولت مند مسلمان حج کو نہ جائے تو اس کی بدبختی میں کیا شبہ ہے۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 11   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2135  
´جس نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذر مانی اس کے حکم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھے کو دیکھا کہ اپنے دو بیٹوں کے درمیان چل رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس کا کیا معاملہ ہے؟ اس کے بیٹوں نے کہا: اس نے نذر مانی ہے، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوڑھے سوار ہو جاؤ، اللہ تم سے اور تمہاری نذر سے بے نیاز ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2135]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  ایسی نذر ماننا درست نہیں جسے پورا کرنے میں انتہائی مشقت ہو۔

(2)
  جب انسان محسوس کرے کہ نذر پوری کرنا بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے تو نذر توڑ کر کفارہ دے دے۔

(3)
  اپنے آپ پر اتنی مشقت ڈالنا مناسب نہیں جس کو نبھانا دشوار ہو۔
اللہ کی رضا ان اعمال کی خلوص کے ساتھ ادائیگی کے ساتھ بھی حاصل ہو سکتی ہے جسے آدمی آسانی سے ادا کرسکے، تاہم نفلی عبادات کا مناسب حد تک اہتمام کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2135   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1760  
´ہدی کے اونٹوں پر سوار ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ہدی کا اونٹ ہانک کر لے جا رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ، وہ بولا: یہ ہدی کا اونٹ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جاؤ، تمہارا برا ہو ۱؎، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری یا تیسری بار میں فرمایا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1760]
1760. اردو حاشیہ: تم پر افسوس کلمہ تو بیخ کہنے کی وجہ اس شخص کی کم فہمی تھی کہ نبی ﷺ دیکھ رہے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ یہ قربانی کا جانور ہے پھر بھی وہ انکار اور اصرار کرتا رہا۔ اسے چاہیے تھا کہ ارشاد نبوی کی بلا چون و چرا تعمیل کرتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1760