صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق جہاد فی سبیل اللہ
حدیث نمبر: 19
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْلا أَنْ أَشُقَّ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ تَغْزُو فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَكِنْ لا أَجِدُ سَعَةً فَأَحْمِلَهُمْ، وَلا يَجِدُونَ سَعَةً فَيَتَّبِعُونِي، وَلا تَطِيبُ أَنْفُسُهُمْ أَنْ يَقْعُدُوا بَعْدِي"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے مومنوں پر دشواری کا احتمال نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں لڑنے والی کسی جماعت سے پیچھے نہ بیٹھتا۔ لیکن خود میرے پاس اتنی وسعت نہیں کہ میں ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں، اور انہیں بھی اتنی سواریاں میسر نہیں کہ وہ ان پر سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں، اور نہ وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میرے (جانے کے بعد) وہ پیچھے بیٹھے رہیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 4863 - حدثنا محمد بن رافع: قال حدثنا عبدالرزاق: قال حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - صحيح بخاري، كتاب الايمان، رقم: 36، كتاب الجهاد والسير، 2972، 2797 - مصنف عبدالرزاق: 253/5، رقم: 9529 - مسند أحمد: 38/16، رقم: 17/8116.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 556  
´شہادت کی آرزو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے`
«. . . 347- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: والذي نفسي بيده، لوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل، فكان أبو هريرة يقول ثلاثا: أشهد بالله. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں (تو قتال کروں) پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین دفعہ فرماتے: میں اللہ (کی قسم) کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 556]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7227، من حديث مالك، ومسلم 106/1876، من حديث ابي الزناد به]
تفقه:
➊ جہاد اس قدر افضل اور عظیم الشان رکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حتی الوسع ہر جہاد میں بذاتِ خود شامل ہوتے تھے۔
➋ میدانِ جنگ وغیرہ میں نبی اور رسول قتل یعنی شہید ہوسکتا ہے۔
➌ سچی قسم کھانا ہر وقت جائز ہے۔
➍ ہر وقت دل میں شہادت کی تمنا سجائے رکھنا اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 346]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 347   
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   19  
´رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق جہاد فی سبیل اللہ`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مجھے مومنوں پر دشواری کا احتمال نہ ہوتا تو میں اللہ کی راہ میں لڑنے والی کسی جماعت سے پیچھے نہ بیٹھتا۔ لیکن خود میرے پاس اتنی وسعت نہیں کہ میں ان سب کو سوار کر کے اپنے ساتھ لے چلوں، اور انہیں بھی اتنی سواریاں میسر نہیں کہ وہ ان پر سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں، اور نہ وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میرے (جانے کے بعد) وہ پیچھے بیٹھے رہیں۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 19]
شرح الحديث:
اس حدیث میں جہاد کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور نبی صلی الله علیہ وسلم کا اپنی امت کے لبے مشفق ہونا بھی واضح ہے، کیونکہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر مسلمانوں کے دلوں میں اس سے رنج نہ ہوتا کہ میں ان کو چھوڑ کر جہاد کے لیے نکل جاؤں، اور مجھے خود اتنی سواریاں میسر نہیں ہیں کہ ان سب کو سوار کرکے اپنے ساتھ لے چلوں، تو میں کسی چھوٹے سے چھوٹے ایسے لشکر کے ساتھ جانے سے بھی نہ رکتا جو الله کے راستے میں غزوہ کے لیے جا رہا ہوتا۔
اس حدیث کی بعض روایات میں کچھ الفاظ زیادہ آئے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«وَلَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِيَّةٍ، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي أُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ، ثُمَّ أُحْيَا، ثُمَّ أُقْتَلُ .» [صحيح بخاري، كتاب الايمان، رقم: 36]
"اور اگر میں اپنی امت پر (اس کام کو) دشوار نہ سمجھتا تو لشکر کا ساتھ نہ چھوڑتا اور میری خواہش ہے کہ الله کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں."
اس حدیث پر امام بخاری رحمة الله علیه نے "کتاب الایمان" میں ایمان کی نشانیاں ذکر کرتے ہوئے باب قائم کیا ہے «بَابُ الْجِهَادِ مِنَ الْاِيْمَان» "باب جہاد بھی ایمان کا جزو ہے۔ " اور اس کے تحت یہ حدیث لائے ہیں جس کا مطلب ہے کہ جہاد ایمان میں داخل ہے، چاہے جہاد مع النفس ہو یا جہاد بالکفار۔ نیز اس باب سے پہلے «بَابُ قِيَام لَيْلَةِ الْقَدْرِ مِنَ الْاِيْمَانِ» "باب شب قدر کی بیداری بھی ایمان سے ہے۔ " ذکر کیا ہے، اور اس کے بعد «بَاب تَطُوْع قِيام رمضان من الإيمان» لائے ہیں۔
امام بخاری رحمة الله علیه کے اس فعل سے اس طرف اشارہ ہے کہ اگر جہاد رمضان المبارک میں واقع ہو تو اور زیادہ ثواب ہے۔ پھر اگر شہادت فی سبیل الله بھی نصیب ہو جائے تو نُوْرٌ عَلَی نُوْرٍ ہے۔
مجاہد فی سبیل الله صرف وہی ہے جس کا خروج خالص الله کی رضا کے لیے ہو، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان ہو، ایسے مجاہد کو اگر شہادت کا درجہ مل گیا تو وہ سیدھا جنت میں داخل ہوا، حوروں کی گود میں پہنچا اور حساب و کتاب سے مستثنیٰ ہوگیا، وہ جنت کے پھل کھائے گا اور معلق قندیلوں میں بسیرا کرے گا، اور اگر وہ سلامتی کے ساتھ گھر واپس آگیا تو وہ پورے پورے ثواب کے ساتھ اور ممکن ہے کہ مال غنیمت کے ساتھ بھی واپس ہوا ہو۔
شرح میں مذکورہ حدیث پاک میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے خود بھی شہادت کی تمنا فرمائی۔ جس سے آپ نے امت کو مرتبہ شہادت بتلانا چاہا۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ شہادت کی آرزو کرنا اس نیت سے کہ اس سے شجرِ اسلام کی آبیاری ہوگی اور آخرت میں بلند درجات حاصل ہوں گے، یہ جائز بلکہ سنت ہے، اور ضروری ہے۔
مذکورہ حدیث مبارکہ میں جہاد کو قیامت تک جاری رہنے کی خبر دی گئی ہے۔ ہاں! طریقہ کار حالات کے تحت بدلتا رہے گا۔ مسلمانوں نے جب سے جہاد و قتال کا رستہ چھوڑا ہے اسی وقت سے وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو گئے ہیں، آج امت مسلمہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں، شیطانی طاقتیں اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہیں، طاغوتی قوتیں ہر طرف سے مسلمانوں کا گھیرا تنگ کر رہی ہیں، شعائر اسلام کی اس قدر توہین کی جا رہی ہے کہ الله کی پناہ، اسلامی اقدار کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، غرض ہر طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو دبایا اور پسپا کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں امت مسلمہ کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لیے جہاد و قتال کی راہ اپنانی ہوگی، لیکن طریقہ نبوی صلی الله علیہ وسلم اور منہج سلف صالحین کے عین مطابق ہو۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 19