صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

اللہ کا ہاتھ بڑی سخاوت والا ہے
حدیث نمبر: 28
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَمِينُ اللَّهِ مَلأَى لا يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يُنْقِصْ مِمَّا فِي يَمِينِهِ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الأُخْرَى الْقَبْضُ يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور شب و روز کا مسلسل خرچ کرنا بھی اس میں کمی نہیں کرتا۔ ذرا دیکھو! جب سے اس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے اس نے کس قدر خرچ کیا ہے؟ پھر بھی جو اس کے سیدھے ہاتھ میں ہے اس سے کچھ کم نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں (اشیاء کی کمی بیشی) کی قدرت ہے۔ وہی (اشیاء کو) گراں اور ارزاں کرتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب التوحيد، رقم: 7419، حدثنا على بن عبدالله: حدثنا عبدالرزاق: أخبرنا معمر عن همام: حدثنا أبو هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم.... - صحيح مسلم، كتاب الزكاة، رقم: 993/37، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: بن همام: حدثنا معمر بن راشد عن همام بن منبه أخي وهب بن منبه، قال: هذا حدثنا أبو هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - شرح السنة، باب ما يكره من إمساك المال، وما يؤمر به من الإنفاق: 154/6-155، رقم: 1656».
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 92  
´کچھ صفات الہی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيرْفَع» - [34] - ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يُغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْل والنهار» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، یعنی اس کا خزانہ بھرا ہوا ہے خرچ کرنے سے کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی۔ رات دن برابر خرچ کرتا اور دیتا رہتا ہے، تم نے دیکھا ہے اس نے جس وقت سے زمین آسمان کو پیدا کیا ہے، کس قدر خرچ کیا ہے مگر اس کے ہاتھ (خزانہ) میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، اور اس کا عرش (تخت) پانی پر تھا اور اسی کے ہاتھ میں روزی کی ترازو ہے وہی نیچا اور اونچا کرتا رہتا ہے۔ بخاری مسلم میں اسی طرح ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اور ابن نمیر راوی نے جو امام مسلم کے استاد ہیں یہ لفظ نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے وہ ہمیشہ خرچ کرنے والا ہے اور دینے والا ہے، رات دن میں خرچ کرنے سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تخریج: [صحيح بخاري 4684]،
[صحيح مسلم 2309]

فقہ الحدیث:
➊ ساری کائنات اور ہر چیز کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اگر وہ اپنی مخلوقات کو اپنے پیدا کردہ خزانوں میں سے بے انتہا بخش دے تب بھی اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہوتی۔
➋ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
➌ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ منکرین صفات کا ہاتھ سے قدرت مراد لینا باطل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 92   
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   28  
´اللہ کا ہاتھ بڑی سخاوت والا ہے`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور شب و روز کا مسلسل خرچ کرنا بھی اس میں کمی نہیں کرتا۔ ذرا دیکھو! جب سے اس نے زمین و آسمان کی تخلیق کی ہے اس نے کس قدر خرچ کیا ہے؟ پھر بھی جو اس کے سیدھے ہاتھ میں ہے اس سے کچھ کم نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر ہے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں (اشیاء کی کمی بیشی) کی قدرت ہے۔ وہی (اشیاء کو) گراں اور ارزاں کرتا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 28]
شرح الحديث:
الله تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور شب و روز کے مسلسل خرچ کرنے سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آتی:
حافظ ابن حجر رحمة الله علیه نے طیبی رحمة الله علیه کا قول نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یوں ہے کہ: ان الفاظ اور مترادف خبروں سے ذاتِ باری تعالیٰ کی عظمت و مرتبت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کے علاوہ ذاتِ باری کا شب و روز صَرفِ پیہم کرنا، اس کے دائمی اور غیر فانی سرچشمۂ دولت کی علامت ہے۔ [فتح الباري: 395/13]

اس کا عرش پانی پر تھا:
حافظ ابن حجر رحمة الله علیه فرماتے ہیں: "اس مقام سے ذکرِ عرش کا تعلق یہ ہے کہ ابتدائے حدیث میں ذکر ہوا۔ «خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ» (الله تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی) تو کہیں سامع کے ذہن میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل کچھ تھا ہی نہیں، بلکہ تخلیق کا ذکر کرنے کے فوراً بعد فرمایا کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے قبل عرش باری تعالیٰ پانی پر تھا۔ جیسا کہ عمران بن حصن رضی الله عنہ سے مروی حدیث ہے «وَكَانَ عَرشُهُ عَلَي الْمَاءِ، ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ» عرش باری تعالیٰ پانی پر تھا، اس کے بعد الله تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ " [فتح الباري: 395/13]
اس بات کی تصدیق قرآن حکیم میں بھی موجود ہے:
«وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ» [هود: 7]
"وہی الله ہے، جس نے چھ دن میں زمین و آسمان کی تخلیق کی، اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ "
سیدنا عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
«كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ .» [صحيح مسلم، كتاب القدر، رقم 6748]
"الله تعالیٰ نے ساری مخلوقات کی تقدیر زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل لکھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اور (اس وقت) الله کا عرش پانی پر تھا۔ "
مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل عرش باری تعالیٰ پانی پر قائم تھا، لیکن قرآن و سنت کے بے شمار دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد سے عرش ساتوں آسمان کے اوپر قائم ہے۔

اس کے دوسرے ہاتھ میں اشیاء کی گرانی و ارزانی کی قدرت ہے:
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں پر مسلسل خرچ کرکے ان پر احسانات کی بارش کرتا رہتا ہے، لیکن بعض اوقات اپنے ہاتھ کو روک لیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
«وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ» [البقرة: 245]
"اور الله تعالیٰ رزق میں کمی بھی کرتا ہے اور (چاہے تو) فراوانی بھی کرتا ہے۔ "
اس کے علاوہ بخاری وغیرہ میں موجود مختلف روایات میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ترازو الله کے ہاتھ میں ہے۔ «والله اعلم بالصواب»
«يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ»
وہی الله بلند کرتا ہے اور پست کرتا ہے۔

یعنی عزت اور ذلت، بلند کرنا اور ذلیل کرنا الله تعالیٰ کے اختیار اور قدرت میں ہے۔

الله تعالیٰ کا دوسرا ہاتھ:
الله تعالیٰ کی ذات بابرکت کے لیے دو ہاتھوں کے ثبوت کا ذکر قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ» [المائده: 24]
بلکہ الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔
اور جہاں تک لفظ "یَدْ" کا معنی قدرت کے مترادف کرنا ہے، تو یہ قرآن و سنت کی تعلیم کے متضاد ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے۔ «لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ» [سورة ص: 75]

میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔
اس آیت میں دراصل "یَدْ" کا تثنیہ مستعمل ہے، تو یہاں پر اگر یَدْ کا معنی "قدرت" کیا جائے، تو مفہوم نکلے گا۔ میں نے اپنی دو قدرتوں سے تخلیق کیا۔ اور یہ مفہوم آیت کے سراسر منافی ہے۔ اس طرح ارشاد باری: «بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ» [المائده: 24]
"بلکہ ذات باری کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔ "
یہاں پر بھی "یَدْ" کی تثنیہ مستعمل ہے اور قدرت کے معنی میں استعمال کرنا نامناسب ہے۔
بنابریں اگر "یَدْ" کا معنی قدرت لیا جائے، تو فرمان الٰہی «وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ» [الزمر: 67]
"پورا کرہ ارض بروز قیامت الله کی مٹھی میں ہوگا۔ "
میں لفظ "قَبْضَتُهُ" مستعمل ہے، تو اس کا یہاں پر کون سا معنی مراد لیا جائے گا؟ اسی طرح "صحیح مسلم" میں عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے مروی ایک حدیث ہے، جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ كَقَلْبٍ وَاحِدٍ .» [صحيح مسلم، كتاب القدر، رقم: 6750]
"بلاشبہ تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک ہی دل کی طرح ثابت ہیں۔ "
اس حدیث میں ذات باری تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا ذکر ہوا ہے۔ تو اگر "یَدْ" کا معنی قدرت ہے، تو پھر انگلیوں کی تاویل کیسے کی جائے گی؟
ہم الله تعالیٰ کی ذات کے لیے ہاتھ، انگلی، اور ہتھیلی تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں قرآن و سنت میں الله تعالیٰ کی ذات بابرکت کے لیے ثابت ہیں۔ ہم ان چیزوں کو بلا تاویل، تشبیہ، تکییف اور تعطیل کے تسلیم کرتے ہیں۔
اور ہم ان تمام چیزوں کو الله تعالیٰ کی ذات بابرکت کے لیے اسی طرح تسلیم کرتے ہیں، جس طرح اس کی ذات کے شایان شان ہے۔
جب ہم تلاوت قرآن کرتے ہیں، تو ہمیں ذات باری تعالیٰ کے لیے لفظ یَدْ کا ثبوت مل جاتا ہے، لیکن یہ لفظ کہیں مفرد، کہیں تثنیہ اور کہیں جمع استعمال ہوا ہے:
مفرد کی مثال: «تَبَارَكَ الَّذِىْ بِيَدِهِ الْمُلْك» (ملك: 1)
"بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے۔ "
تثنیہ کی مثال: «بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ» (مائدہ: 24)
"بلکہ الله کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔ "
جمع کی مثال: «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ» (یٰس: 71)
"کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کیے، جن کے یہ مالک ہیں۔ "
ان تمام صورتوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ جو سب سے پہلے ہے (یَدْ) وہ مفرد مضاف ہے، اور وہ جمع کا معنی دے رہا ہے، لہذا وہ اس بات کے منافی نہیں کہ الله کے لیے دو ہاتھ ثابت نہ ہوں۔
رہی یہ بات کہ الله کی ذات کے لیے "اَیْدِیْنَا" "ہمارے ہاتھ" کا صیغہ جمع استعمال ہوا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جمع تعظیم کے لیے ہے نہ کہ حقیقی جمع مراد ہے، جس کا اطلاق تین یا تین سے زائد پر ہوتا ہے، اور یہ بھی منقول ہے کہ جمع کا اطلاق کم سے کم دو پر بھی ہوتا ہے، تو اس صورت میں اشکال لفظ تثنیہ پر ہو ہی نہیں سکتا۔
لہذا قرآن و حدیث سے ذات باری کے لیے دو ہاتھوں کا ثبوت ہے، اور ہم الله کے دو ہاتھوں یا کسی اور صفت کو بلا تمثیل و تعطیل (بغیر کوئی مثال بیان کیے اور بغیر الله کو صفات سے عاری جانے) اس کی شان کے مطابق تسلیم کرتے ہیں۔

الرد علی منکر الید الیمنی الاخری:
بعض جہال نے صحیفہ کی اس حدیث پر عنوان قائم کیا ہے: "الله کا دایاں اور بایاں ہاتھ"
لیکن یہ بات سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔ الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، ان کی کیفیت کیا ہے؟ نہیں معلوم! لیکن ہیں دونوں دائیں کما یلیق بجلاله وشانه۔ دلیل کے طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی قدر ملاحظہ ہو:
«كِلْتَا يَدى الله يَمِيْنٌ» [مجمع الزوائد: 344/10]
"الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ "
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 28   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث197  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہو گا؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں اللہ کے لیے ہاتھ اور ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بھی ان صفات میں سے ہے جن پر بلا تشبیہ اور بلا تاویل ایمان لانا چاہیے، قرآن مجید میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر متعدد مقامات پر ہے، مثلا:
(دیکھیے سورہ ص: 75)

(2)
اس حدیث میں اللہ کے ایک ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے، عربی میں لفظ یمین ہے جس میں یمن، یعنی برکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے:
(كِلْتَا يَدَيْهِ يَمِيْنٌ) (صحيح مسلم، الامارة، باب فضيلة الامير العادل، حديث: 1827)
 اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں یعنی ایک کو یمین (دایاں، بابرکت)
کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ہاتھ میں برکت نہیں۔
اس کے دونوں ہاتھ ہی بابرکت ہیں۔

(3)
ترازو کو اونچا کرنے اور جھکانے کا مطلب ہے کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا، اور کسی کو (حکمت کی بنا پر)
کم دینا یا کبھی زیادہ دینا اور کبھی کم دینا یا کبھی کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا اور دوسرے کوکوئی اور نعمت زیادہ دینا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ‌ مَعلومٍ﴾  (الحجر: 21)
 ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں (لیکن)
ہم اسے ایک مقرر اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔

(4)
اللہ کے خزانے ختم ہونا تو درکنار ان میں کمی بھی نہیں ہوتی،۔
کیونکہ اسے کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، نہ کوئی محنت کرنا پڑتی ہے۔
بلکہ اس کا ارادہ ہی ہر مخلوق کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمانے کے لیے کافی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ﴾  (یس: 82)
 وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے اتنا فرما دینا کافی ہو جاتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

(5)
جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی، تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے۔
کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَسـَٔلُهُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ كُلَّ يَومٍ هُوَ فى شَأنٍ﴾  (الرحمن: 29)
 سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں، ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 197   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3045  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کر چکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم)۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3045]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،
انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی،
بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں،
جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے (المائدہ: 64)

2؎:
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو تاویل کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تفسیر،
یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے،
اس کی کیفیت بیان کئے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3045