صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

نیکوکار لوگوں کے لیے جنت میں عجیب و غریب نعمتیں
حدیث نمبر: 31
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ قَالَ: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لا عَيْنٌ رَأَتْ وَلا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اللہ نے فرمایا: میں نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک (پیدا) ہوا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب التوحيد، باب قول الله عز وجل: ﴿يُرِيْدُوْنَ أَنْ يُّبَدِّلُوْا كَلَامَ اللهِ﴾ رقم: 7498، حدثنا معاذ بن أسد: أخبرنا عبدالله: أخبرنا معمر عن همام بن منبه، عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم قال:.... - صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها (في أول الكتاب)، رقم: 2824/3 - مسند أحمد: 46/16 - مصنف عبدالرزاق، كتاب الجامع، باب الجنة وصفتها: 416/11 - شرح السنة، باب الصفة الجنة وأهلها: 206/15.»
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   31  
´نیکوکار لوگوں کے لیے جنت میں عجیب و غریب نعمتیں`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:اللہ نے فرمایا: میں نے اپنے فرمانبردار بندوں کے لیے ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں جنہیں نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک (پیدا) ہوا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 31]
شرح الحديث:
اس حدیث قدسی میں صراحت کے ساتھ سب انسانوں کو حصول جنت کی رغبت دلائی گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ جو کوئی الله تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار بن جائے، تو وہ اسے ایسے بلند پایہ انعام و اکرام سے نوازے گا جو اس کے تصور و خیال سے بھی بالاتر ہوں گے۔
جنت میں ایسی ایسی نعمتوں اور راحتوں کا منظر ہوگا، جنہیں اہل دنیا کی آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے سنا تک نہ ہوگا۔
علاوہ ازیں وہ نعمتیں ایسے انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی ہیں، جن کے متعلق کسی دل میں خیال و تصور تک پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ لوگوں کے پاس وہ دل نہیں جو جنت کی نعمتوں اور راحتوں کا تصور قائم کر سکیں، یعنی کہ ایسے دلوں میں قوت تصور موجود نہیں ہے۔ الله تعالیٰ نے گزشتہ امتوں کی تباہی اور بربادی کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
«إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ» [ق: 37]
"یقیناً ان (گزشتہ واقعات) میں نصیحت ہے اس شخص کے لیے جو صاحبِ دل ہو۔ "
اس آیت مبارکہ سے پوری طرح واضح ہو گیا کہ گوشت کا ٹکڑا یعنی دل تو سب کے پاس موجود ہے، مگر اس دل سے مراد نصیحت قبول کرنے والا دل ہے۔
عام طور پر مشہور ہے کہ کوئی آنکھ جنت اور اس کی بہار اور نعمتوں کو دیکھ نہیں پاتی، جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے معراج کے موقع پر ان کا نظارہ کیا تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس مطلق نفی سے امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوٰة والسلام کا نہ دیکھنا مراد ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔

خیالات انسانی سے بالاتر نعمتیں:
«وَلَا خَطَرَ عَلَي قَلْبٍ بَشَرٍ» "اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال تک (پیدا) ہوا۔ " اس حدیث میں ایک لفظ "بشر" استعمال ہوا ہے، جس سے مقصود یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں اور راحتیں فقط انسانوں کے لیے بنائی گئی ہیں نہ کہ فرشتوں کے لیے، چناچہ انسانوں کو شوق دلانے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے الله تعالیٰ سے پوچھا کہ (اے الہی!) اہل جنت کے لیے جنت میں سب سے بڑا مقام کون سا ہوگا؟ (اس کے جواب میں) ذات باری تعالیٰ نے فرمایا: (وہ ایسا مقام ہے) جہاں پر میں نے اپنے ہاتھ سے پودے گاڑے ہیں اور ان پر مہریں ثبت کر دیں، تاکہ کوئی آنکھ اسے دیکھ نہ پائے، کوئی کان انہیں سن نہ پائے اور کسی دل میں ان کا خیال تک پیدا نہ ہو۔
ایک دوسری روایت کے آخر میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ "اور اسی بات کی تصدیق کتاب الہی میں بھی موجود ہے۔ جیسا کہ فرمایا: «فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ» [سورة السجده: 17]
"کوئی نفس (یہ بات) نہیں جانتا کہ ان کے لیے تسکین کا کون سا سامان مخفی رکھا گیا ہے۔ " [صحيح مسلم، كتاب الايمان، رقم: 465 - سنن ترمذي، رقم: 3198 - فتح الباري: 516/8]
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 31   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4328  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمت تیار کر رکھی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا، اور نہ کسی آدمی کے دل میں اس کا خیال آیا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان نعمتوں کے علاوہ جو تم کو اللہ تعالیٰ نے بتائی ہیں اور بھی نعمتیں ہیں، اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو: «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون» کوئی نفس نہیں جانتا ہے کہ اس کے لیے کیا آنکھوں کی ٹھنڈک چھپا کر رکھی گئی ہے، یہ بدلہ ہے اس کے نیک اعمال کا (سورۃ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4328]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان انھی نعمتوں کا تصور کر سکتا ہے جو اسے حاصل ہوں یا ان سے ملتی جلتی نعمتوں کا تصور کر سکتا ہے۔
جبکہ جنت کی نعمتیں ان سے بلکل منفرد اور انوکھی ہیں۔

(2)
جنت کی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جنکی ہم نام اشیاء دنیا میں پائی جاتی ہیں مثلاً مختلف پھل اور میوے پرندوں کا گوشت طرح طرح کے مشروبات وغیرہ ان میں بھی دنیا کی نعمت اور جنت کی نعمت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
ان کے علاوہ بھی ایسی نعمتیں ہیں جن کا ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔
کیونکہ وہ دنیا کی نعمتوں سے کسی طرح بھی مشابہ نہیں ہیں۔

(3)
کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں۔
اس سے مراد انسان اور جن ہیں۔
انھوں نے یہ نعمتیں نہ دیکھیں نہ سنیں جو حضرات فوت یا شہید ہوکر جنت میں پہنچ گئے وہ ان نعمتون سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

(4)
جنت کی ہر نعمت خالص مسرت اور خوشی کا باعث ھے۔
دنیا کی چیزوں کی طرح ان کے حصول کے لیے تکلیف و مشقت اور حصول کے بعد گم ہونے، چوری ہونے یا ختم ہونے کا خطرہ یا ان کے استعمال کے کچھ ضمنی ناپسندیدہ اثرات جیسے زیادہ کھا لینے سے پیٹ کی تکلیف وغیرہ بلکل نہیں۔

(5)
قرآن مجید کے بعض الفاظ کو ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کے لیے ضروری ہے۔
کہ وہ طریقہ معتبر انداز سے مروی ہو۔
علمائے قرات و تجوید نے ایسے کلمات اورانکو پڑھنے کے طریقے بیان کر دیے ہیں۔
ان سے ہٹ کر پڑھنا جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4328   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3197  
´سورۃ السجدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے جسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے، اس کی تصدیق کتاب اللہ (قرآن) کی اس آیت «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون» کوئی شخص نہیں جانتا جو ہم نے ان کے (صالح) اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک (کے لیے) پوشیدہ رکھ رکھی ہے (السجدۃ: ۱۶)، سے ہوتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3197]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کوئی شخص نہیں جانتا جو ہم نے ان کے (صالح) اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک (کے لیے) پوشیدہ رکھ رکھی ہے (السجدۃ: 16)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3197