صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

نماز باجماعت کی تاکید اور سستی کرنے والوں کے لیے وعید شدید
حدیث نمبر: 37
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْيَانِي أَنْ يَسْتَعِدُّوا لِي بِحُزَمِ حَطَبٍ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلا يُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُحَرِّقُ بُيُوتًا عَلَى مَنْ فِيهَا"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے پختہ عزم کیا تھا، اپنے جوانوں کو حکم دوں کہ وہ میرے لیے لکڑیوں کی گٹھڑیاں تیار کریں، پھر میں کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ بعدازاں گھروں کو ان مکینوں سمیت جلا دیں (جو باجماعت نماز میں شامل نہیں ہوئے)۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب الأذان، باب وجوب صلوٰة الجماعة، رقم: 644 - صحيح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلوٰة، باب فضل الجماعة، رقم: 651/253 - وحدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - مسند أحمد: 10/16 - السنن الكبرىٰ للبيهقي: 55/3 - كتاب الصلوٰة، باب ما جاء من التشديد فى ترك الجماعة من غير عذر - مصنف عبدالرزاق: 517، 518، رقم: 1985، باب شهود الجماعة.»
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   37  
´نماز باجماعت کی تاکید اور سستی کرنے والوں کے لیے وعید شدید`
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے پختہ عزم کیا تھا، اپنے جوانوں کو حکم دوں کہ وہ میرے لیے لکڑیوں کی گٹھڑیاں تیار کریں، پھر میں کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ بعدازاں گھروں کو ان مکینوں سمیت جلا دیں (جو باجماعت نماز میں شامل نہیں ہوئے)۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 37]
شرح الحديث:
اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرضِ عین ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله علیه "فتح الباری" میں لکھتے ہیں: "نماز باجماعت ادا کرنا فرض عین ہے نہ کہ سنت اور فرض کفایہ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اگر باجماعت نماز ادا کرنا سنت ہوتا، تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم جماعت کے تارک کے لیے جھلسا دینے والی اتنی غضبناک وعید (قطعاً) بیان نہ فرماتے۔
اور اگر یہ فعل فرض کفایہ ہوتا، تو پھر الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم اور ان کے ساتھ جو لوگ شریک تھے، انہی کے لیے کافی تھا کہ وہ ایک ساتھ ہوکر یہ فرض نبھا دیں۔ اتنے تکلفات کی کیا ضرورت تھی کہ لوگوں کو نماز کے لیے بلایا جائے اور ان میں سے کسی ایک کو مصلیٔ امامت پر کھڑا کرکے لوگوں سمیت ان کے گھروں کو نظر آتش کیا جائے، یعنی ایسی باتیں کہنے کی کیا ضرورت تھی۔
اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمة الله علیه فرماتے ہیں: اسی لیے بعض فقہاء نے اس فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم سے استدلال کیا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا فرضِ عین ہے۔ جن فقہاء کرام نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے، وہ عطاء، اوزاعی، احمد، ابوثور، ابن خزیمہ، ابن المنذر، ابن حبان اور امام بخاری رحمہم الله ہیں۔ [فتح الباري: 2 /125-129]

فوائد حدیث:
علامہ عینی رحمة الله علیہ نے اس حدیث سے ماخوذ کئی فوائد بیان کیے ہیں، جو ذیل کی سطور میں درج کیے جاتے ہیں۔
1- ہمیشہ سزا دینے سے قبل وعید کو مقدم رکھنا چاہیے، اس لیے کہ اگر اصلاح غلطی فقط ڈانٹ ڈپٹ اور مختصر سزا سے ہو جائے، تو بجائے بڑی سزا دینے کے اسی مختصر پر اکتفا کیا جائے۔
2- حق کی وجہ سے کسی بھی شخص کو اس کے گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا تھا، یعنی آگ سے جلانے کا۔
3- غفلت پر مجرم کی گرفت کرنا۔
4- بلا استحلاف قسم کھانا جائز ہے۔ جیسا کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی۔
5- کسی عذر کی وجہ سے جماعت میں شریک نہ ہونا جائز ہے۔ جیسا کہ مرض، خوف، کسی ظالم یا درندے کے آنے کی وجہ سے نماز کا فوت ہو جانا بھی اسی سے متعلق ہے۔
6- کسی مصلحت کے سبب افضل کی موجودگی میں مفضول (مراد یہ ہے کہ مرتبت اور علم میں کم ہو) شخص نماز پڑھا سکتا ہے۔ جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا تھا۔ [عمدة القاري: 4 /333-335]
آخر میں ہم یہ بات عرض کرتے ہیں کہ نماز باجماعت ادا کرنا ہی نماز کے شایانِ شان ہے اور ساتھ ساتھ اسلام سے مودت، محبت اور موانست کا اظہار بھی اور بلا عذر جماعت سے انفرادیت اختیار کرنا غیر مناسب اور غیر معقول ہے۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 37