صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

انفاق فی سبیل للہ کی برکت
حدیث نمبر: 40
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ قَالَ: أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَسَمَّى الْحَرْبَ خَدْعَةً"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا: (اے میرے بندے!) تو خیر کے راستہ میں اپنا مال خرچ کر، تو میں تجھ پر خرچ کروں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا نام دھوکہ و چال بازی رکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب التفسير، باب قوله ”وكان عرشه على الماء“، رقم: 4684، وكتاب النفقات، باب فضل النفقة على الأهل، رقم: 5352 - صحيح مسلم، كتاب الزكاة، باب الحث على النفقة وتبشير المنفق بالخلف، 993/36، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق بن همام: حدثنا معمر عن راشد عن همام بن منبه أخي وهب بن منبه قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - مسند أحمد: 52/16، 35، رقم: 40/8138، 41 - شرح السنة: 154/6، رقم: 1656، وقال هذا حديث متفق عليه على صحته.»
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 92  
´کچھ صفات الہی`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُذْ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيرْفَع» - [34] - ‏‏‏‏وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: «يَمِينُ اللَّهِ مَلْأَى قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ مَلْآنُ سَحَّاءُ لَا يُغِيضُهَا شَيْءٌ اللَّيْل والنهار» ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، یعنی اس کا خزانہ بھرا ہوا ہے خرچ کرنے سے کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی۔ رات دن برابر خرچ کرتا اور دیتا رہتا ہے، تم نے دیکھا ہے اس نے جس وقت سے زمین آسمان کو پیدا کیا ہے، کس قدر خرچ کیا ہے مگر اس کے ہاتھ (خزانہ) میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے، اور اس کا عرش (تخت) پانی پر تھا اور اسی کے ہاتھ میں روزی کی ترازو ہے وہی نیچا اور اونچا کرتا رہتا ہے۔ بخاری مسلم میں اسی طرح ہے اور مسلم کی روایت میں اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ اور ابن نمیر راوی نے جو امام مسلم کے استاد ہیں یہ لفظ نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے وہ ہمیشہ خرچ کرنے والا ہے اور دینے والا ہے، رات دن میں خرچ کرنے سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تخریج: [صحيح بخاري 4684]،
[صحيح مسلم 2309]

فقہ الحدیث:
➊ ساری کائنات اور ہر چیز کا خالق صرف ایک اللہ ہے۔ اگر وہ اپنی مخلوقات کو اپنے پیدا کردہ خزانوں میں سے بے انتہا بخش دے تب بھی اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہوتی۔
➋ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے۔
➌ اللہ کا ہاتھ اس کی صفت ہے جس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اللہ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ منکرین صفات کا ہاتھ سے قدرت مراد لینا باطل ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 92   
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   40  
´انفاق فی سبیل للہ کی برکت`
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا: (اے میرے بندے!) تو خیر کے راستہ میں اپنا مال خرچ کر، تو میں تجھ پر خرچ کروں گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کا نام دھوکہ و چال بازی رکھا ہے۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 40]
شرح الحديث:
یہ بات یاد رہے کہ یہ حدیث دو اجزاء پر مشتمل ہے۔
اول: حديث قدسى اور وه یہ ہے، «أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ»
ثاني: حديث نبوى صلى الله عليه وسلم، اور وه یہ ہے «وَسَمَّى الْحَرْبَ خُدْعَةً.»
یہ بات بھی یاد رہے کہ مذکورہ حدیث اصل میں دو الگ الگ حدیثیں ہیں۔ جو ایک ہی سند سے روایت کی گئی ہیں۔ اور جہاں تک جزء ثانی کا تعلق ہے، تو وہ مکرر ہے، یعنی وہ حدیث نمبر 30 میں گزر چکی ہے اور اس جگہ اس کی تخریج بھی موجود ہے۔
حدیث قدسی میں وارد لفظ «أَنْفِقْ» کی عمومیت سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ انفاق مال کی ترغیب بغیر کسی تقیید و تعیین کے ہے۔ یعنی مال خرچ کرنے میں کسی قسم کی مقدار، پیمانہ اور حد بندی بیان نہیں کی گئی، کیونکہ جو مال الله کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے، وہ خیر و بھلائی کی تمام اقسام کو شامل ہوتا ہے۔ [فتح الباري: 499/9]
علامہ نووی رحمة الله علیه رقم طراز ہیں:
"حدیث قدسی "أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ" عین مشابہہ و مترادف ہے، اس فرمان کے جو الله عزوجل نے سورة سباء آیت نمبر 39 میں فرمایا ہے: «وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ» "اور (اس کی راہ میں) تم لوگ جتنا مال خرچ کرتے ہو، وہ تمہیں اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا۔ "
پس اس آیت مبارکہ اور حدیث قدسیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں خیر و بھلائی کے راستے پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دلا رہی ہیں۔ علاوہ ازیں اس فضل کی بشارت بھی دے رہی ہیں کہ الله تعالیٰ اپنے فضل سے تمہارے خرچ کیے ہوئے مال کو واپس لوٹائے گا۔ " دیکھئے: [شرح مسلم، للنووي: 32/3]

«أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ:» یعنی ابن آدم جب الله کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے، تو بادیٔ النظر (عموماً دیکھنے) میں محسوس ہوتا ہے کہ مال میں قلت و کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب کہ ایسا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مال الله کے یہاں محفوظ ہو جاتا ہے، اور اجر و ثواب میں بڑھتا رہتا ہے۔ چناچہ ارشاد فرمایا:
«وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ» [الروم: 39]
"اور جو تم زکٰوة دیتے ہو (اور اس سے الله کا چہرہ طلب کرتے ہو تو (وہ موجب برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو کئی گنا) بڑھانے والے ہیں۔ "
انہیں الله تعالیٰ دوگنا چوگنا ثواب عطا فرمائے گا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں آیا ہے:
«مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ , وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ اَوْ اَعْظَمَ.» [صحيح بخاري، كتاب الزكاة، رقم: 1410 - صحيح مسلم، كتاب الزكاة، رقم: 63، 64 / 1014]
"جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور الله تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو الله تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے يا اس سے بهى بڑا۔ "
اس کے برعکس جب الله تبارک و تعالیٰ اپنی مخلوقات پر خرچ فرماتا ہے، تو اس کے خزانوں میں کسی قسم کی کوئی قلت، نقص اور کمی نہ حقیقت میں واقع ہوتی ہے اور نہ ہی بادیٔ النظر میں۔ جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا يَغِيضُهَا نَفَقَةٌ» [صحيح بخاري، كتاب التوحيد، رقم: 7411]
"الله تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے، وہ کبھی (بھی) خالی نہیں ہوتا۔ "
مزید فرمان الہٰی بھی ہے:
«مَا عِندَكُمْ يَنفَدُ ۖ وَمَا عِندَ اللَّـهِ بَاقٍ ۗ» [النحل: 96]
"جو کچھ تمہارے پاس وہ (ایک نہ ایک دن) ختم ہو جائے گا۔ اور جو الله کے پاس ہے وہ (ہمیشہ باقی رہے گا) محفوظ رہے گا۔ "
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث/صفحہ نمبر: 40   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث197  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، رات دن خرچ کرتا رہتا ہے پھر بھی اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے، وہ اسے پست و بالا کرتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذرا غور کرو کہ آسمان و زمین کی تخلیق (پیدائش) سے لے کر اس نے اب تک کتنا خرچ کیا ہو گا؟ لیکن جو کچھ اس کے دونوں ہاتھ میں ہے اس میں سے کچھ بھی نہ گھٹا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 197]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں اللہ کے لیے ہاتھ اور ہاتھوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
یہ بھی ان صفات میں سے ہے جن پر بلا تشبیہ اور بلا تاویل ایمان لانا چاہیے، قرآن مجید میں اللہ کے لیے دو ہاتھوں کا ذکر متعدد مقامات پر ہے، مثلا:
(دیکھیے سورہ ص: 75)

(2)
اس حدیث میں اللہ کے ایک ہاتھ کو دایاں کہا گیا ہے، عربی میں لفظ یمین ہے جس میں یمن، یعنی برکت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
حدیث میں ہے:
(كِلْتَا يَدَيْهِ يَمِيْنٌ) (صحيح مسلم، الامارة، باب فضيلة الامير العادل، حديث: 1827)
 اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں یعنی ایک کو یمین (دایاں، بابرکت)
کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے ہاتھ میں برکت نہیں۔
اس کے دونوں ہاتھ ہی بابرکت ہیں۔

(3)
ترازو کو اونچا کرنے اور جھکانے کا مطلب ہے کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا، اور کسی کو (حکمت کی بنا پر)
کم دینا یا کبھی زیادہ دینا اور کبھی کم دینا یا کبھی کسی کو کوئی نعمت زیادہ دینا اور دوسرے کوکوئی اور نعمت زیادہ دینا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن مِن شَىءٍ إِلّا عِندَنا خَزائِنُهُ وَما نُنَزِّلُهُ إِلّا بِقَدَرٍ‌ مَعلومٍ﴾  (الحجر: 21)
 ہمارے پاس ہر چیز کے خزانے موجود ہیں (لیکن)
ہم اسے ایک مقرر اندازے کے مطابق نازل کرتے ہیں۔

(4)
اللہ کے خزانے ختم ہونا تو درکنار ان میں کمی بھی نہیں ہوتی،۔
کیونکہ اسے کسی بھی چیز کے حصول کے لیے کسی کا محتاج نہیں ہونا پڑتا، نہ کوئی محنت کرنا پڑتی ہے۔
بلکہ اس کا ارادہ ہی ہر مخلوق کو ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمانے کے لیے کافی ہے۔
ارشاد ہے:
﴿إِنَّما أَمرُ‌هُ إِذا أَر‌ادَ شَيـًٔا أَن يَقولَ لَهُ كُن فَيَكونُ﴾  (یس: 82)
 وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، تو اسے اتنا فرما دینا کافی ہو جاتا ہے کہ ہو جا، وہ اسی وقت ہو جاتی ہے۔

(5)
جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی، تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے۔
کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَسـَٔلُهُ مَن فِى السَّمـوتِ وَالأَر‌ضِ كُلَّ يَومٍ هُوَ فى شَأنٍ﴾  (الرحمن: 29)
 سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں، ہر روز وہ ایک شان میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 197   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3045  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ بھرا ہوتا ہے، (کبھی خالی نہیں ہوتا) بخشش و عطا کرتا رہتا ہے، رات و دن لٹانے اور اس کے دیتے رہنے سے بھی کمی نہیں ہوتی، آپ نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے دیکھا (سوچا؟) جب سے اللہ نے آسمان پیدا کیے ہیں کتنا خرچ کر چکا ہے؟ اتنا کچھ خرچ کر چکنے کے باوجود اللہ کے ہاتھ میں جو کچھ ہے اس میں کچھ بھی کمی نہیں ہوئی۔ اس کا عرش پانی پر ہے، اس کے دوسرے ہاتھ میں میزان ہے وہ اسے بلند کرتا اور جھکاتا ہے (جسے چاہتا ہے زیادہ دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم)۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3045]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎ اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں،
انہی کے ہاتھ بندے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی،
بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں،
جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے (المائدہ: 64)

2؎:
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے اس کی نہ تو تاویل کی جائے گی اور نہ ہی کوئی تفسیر،
یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ہاتھ ایسا ایسا ہے بلکہ جیسی اس کی ذات ہے ایسے ہی اس کا ہاتھ بھی ہے،
اس کی کیفیت بیان کئے بغیر اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3045