صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

جنت میں سب سے پہلے جانے والے گروہ کی فضیلت
حدیث نمبر: 86
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوَّلُ زُمْرَةٍ تَلِجُ الْجَنَّةَ صُوَرُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، لا يَبْصُقُونَ فِيهَا وَلا يَمْتَخِطُونَ وَلا يَتَغَوَّطُونَ فِيهَا، آنِيَتُهُمْ وَأَمْشَاطُهُمْ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَمَجَامِرُهُمْ مِنَ الأَلُوَّةِ، وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ زَوْجَتَانِ، يُرَى مُخُّ سَاقِهَا مِنْ وَرَاءِ اللَّحْمِ مِنَ الْحُسْنِ، لا اخْتِلافَ بَيْنَهُمْ وَلا تَبَاغُضَ، قُلُوبُهُمْ عَلَى قَلْبٍ وَاحِدٍ، يُسَبِّحُونَ اللَّهَ بُكْرَةً وَعَشِيًّا"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلا گروہ جو جنت میں داخل ہو گا ان کی صورتیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی۔ وہ (جنتی) نہ تو اس میں تھوکیں گے، نہ ناک صاف کریں گے اور نہ ہی رفع حاجت کریں گے، ان کے برتن کنگھیاں سونے اور چاندی کی ہوں گی۔ ان کی انگیٹھیوں (کا ایندھن) عود ہندی (خوشبودار لکڑی) ہے۔ ان کا پسینہ کستوری کی مانند (خوشبودار) ہو گا اور ہر ایک جنتی کی دو دو بیویاں ہوں گی، جن کی پنڈلیوں کا گودا خوبصورتی کی وجہ سے گوشت کے بیچ سے نظر آئے گا۔ نیز جنتیوں کے درمیان کسی قسم کا نہ کوئی اختلاف ہو گا اور نہ کوئی بغض، سب کے دل ایک دل کی مانند ہوں گے اور صبح شام اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب بدء الخلق، باب ما جاء فى صفة الجنة وأنها مخلوقة: 3245، حدثنا محمد بن مقاتل: أخبرنا عبدالله: أخبرنا معمر عن همام بن منبه عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - صحيح مسلم، كتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب فى صفات الجنة وأهلها وتسبيحهم فيها بكرة وعشيا، رقم: 2834/17، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا به أبو هريرة رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم.... - سنن الترمذي، كتاب صفة الجنة، باب ما جاء فى صفة أهل الجنة، رقم: 2537 - مسند أحمد: 83/16، رقم: 89/8183 - مصنف عبدالرزاق: 413/11-414، كتاب الجامع، باب الجنة وصفتها - شرح السنة: 207/15، باب صفة الجنة، وما أعد الله للصالحين فيها.»
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4333  
´جنت کے احوال و صفات کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہو گی وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گی، پھر جو لوگ ان کے بعد آئیں گے آسمان میں سب سے زیادہ روشن تارے کی طرح چمکتے ہوں گے، نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پاخانہ، نہ وہ ناک صاف کریں گے نہ تھوکیں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ مشک کا ہو گا، ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی، ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی، سارے جنتیوں کی عادت ایک شخص جیسی ہو گی، سب اپنے والد آدم علیہ السلام کی شکل و صورت پر ہوں گے، ساٹھ ہاتھ کے لمبے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4333]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
اہل جنت کو حسن و جمال ان کے اعمال اور درجا ت کے مطابق ملے گا۔

(2)
بلند درجات کے حامل مومن دوسروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔

(3)
سب سے پہلے داخل ہونے سے مراد انبیائے کرام ؑ کے بعد دوسروں سے پہلے داخلہ ہے۔
یا امت محمدیہ میں سے سب سے پہلے داخل ہونے والے افراد مراد ہیں۔

(4)
پیشاب پاخانہ وغیرہ دنیا کی مادی غذا کا غِیر مفید جزء ہیں۔
جنت کی غذاوں میں کوئی ایسا جزء شامل نہیں ہوگا۔
اس لیے وہ مکمل ہضم ہو کر جزو بدن بن جائے گی۔
اور قضائے حاجت کی ضرورت پیش نہیں آئیگی۔

(5)
خو شبو بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔
دنیا میں اگربتی کی صورت میں اس کے مختلف مظاہر موجود ہے۔
جنت میں بھی یہ نعمت موجود ہو گی۔
چناچہ اس مقصد کے لیے بہترین قسم کی خوشبو دار لکڑی موجود ہوگی جو انگھیٹیوں میں جلائی جائے گی۔

(6)
عربی میں لفظ حور جمع ہے۔
حوراء اس عورت کو کہتے ہیں جس کی آنکھوں کا سفید حصہ خوب سفید اور سیاہ حصہ خوب سیاہ ہو۔
اہل عرب کے نزدیک یہ چیز خوبی اور حسن میں شامل تھی۔
۔
حدیث میں اس سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اللہ تعالی نے جنت میں مومنوں کے لیے پیدا کی ہیں۔
جو حسن صورت اور حسن سیرت میں بے مثال ہیں۔

(7)
ساتھی اخلاق و عادات پسند و نا پسند میں جسقدر ہم خیال ہوں اتنا ہی انکی دوستی پختہ اور گہری ہوتی ہے۔
اہل جنت ہم خیال اور ہم ذ ہن ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے سے بہت محبت رکھیں گے ان میں کوئی اختلاف اور جھگڑا نہیں ہوگا۔

(8)
تمام جنتی پورے قد و کاٹھ کے اور حسین اور جمیل ہوں گے۔

(9)
حضرت آدم علیہ سلام کو پیدا کیا گیا تو ان کا قد موجودہ اندازے سے ساٹھ ہاتھ نوے فٹ تھا۔
جنت میں سبھی لوگ اسی قد کے ہوں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4333