صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
8. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُحِلَّتْ لَكُمُ الْغَنَائِمُ»:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ تمہارے لیے غنیمت کے مال حلال کئے گئے۔
حدیث نمبر: 3122
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَقِيرُ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أُحِلَّتْ لِي الْغَنَائِمُ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو سیار بن ابی سیار نے خبر دی ‘ کہا ہم سے یزید فقیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا میرے لیے (مراد امت ہے) غنیمت کے مال حلال کئے گئے ہیں۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 109  
´غنائم کا حلال کیا جانا`
«. . . عن جابربن عبد الله رضي الله عنهما: ان النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال:‏‏‏‏اعطيت خمسا لم يعطهن احد قبلي: نصرت بالرعب مسيرة شهر وجعلت لي الارض مسجدا وطهورا فايما رجل ادركته الصلاة فليصل . . .»
. . . سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا فرمائی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی (نبی و رسول) کو بھی نہیں دی گئیں۔ میری ایک مہینہ کی مسافت سے (دشمن پر) رعب و دبدبے سے مدد دی گئی ہے۔ ساری زمین میرے لئے سجدہ گاہ اور طہارت و پاکیزگی کا ذریعہ بنائی گئی ہے، اب جس آدمی کو (جہاں بھی) نماز کا وقت آ جائے اسے نماز پڑھ لینی چاہیئے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 109]

لغوی تشریح:
«بَابُ التَّيَمُّمِ» تیمّم کے لغوی معنی ہیں: قصد و ارادہ کرنا۔ شرعی اصطلاح میں نماز وغیرہ کو مباح کرنے کی غرض سے چہرے اور ہاتھوں پر ملنے کے لیے پاک مٹی کے قصد و ارادہ کو تیمّم کہتے ہیں۔
«أُعْطِيتُ» مجھے دی گئی ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا فرمائی ہیں۔
«خَمْسًا» پانچ ممیّزات و خصائص۔
«نُصِرْتُ» میں مدد دیا گیا ہوں۔ صیغہ مجہول ہے۔
«بِالرُّعْبِ» را پر ضمہ اور عین ساکن ہے۔ خوف۔
«مَسِيرَةَ شَهْرٍ» مہینے بھر کی مسافت اور دوری سے میرے دشمن پر میرا رعب و دبدبہ پڑ جاتا ہے۔ ممیّزات خمسہ میں سے یہ پہلا امتیاز ہے اور دوسرا «جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِدًا» کا امتیاز ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو بھی نہیں دیا گیا، کیونکہ اس سے پہلے یہود و نصاریٰ صرف اپنے گرجوں اور عبادت گاہوں ہی میں نماز ادا کر سکتے تھے۔
«‍‌وَطَهُورًا» طا پر فتحہ ہے، یعنی پاکیزگی و طہارت حاصل کرنے اور جنابت و ناپاکی کو دور کرنے کا ذریعہ۔ اس طرح سے ادائیگی نماز کا موقع پیدا کیا گیا ہے۔
«أَدْرَكَتْهُ» اس کا وقت آ پہنچے، یعنی نماز کا وقت ہو جائے۔
«فَلْيُصَلِّ» تو اسے نماز پڑھ لینی چاہیے، خواہ مسجد نہ ملے اور پانی مہیا نہ ہو سکے۔
«وَذَكَرَ» یعنی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یا راوی نے باقی حدیث بیان کی۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں سے مصنف نے بالخصوص آپ کو عطا کیے جانے والے دو امتیازات و خصائص کا ذکر کیا ہے اور باقی تین یہ ہیں: غنائم کا حلال کیا جانا، یعنی دوران جنگ میں دشمن سے جو اموال افواج اسلام کے قبضے میں آئیں وہ آپ کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے حلال کیے گئے ہیں۔ نیز شفاعت کبریٰ بھی آپ ہی فرمائیں گے، یہ امتیاز بھی صرف آپ ہی کا ہے، تاکہ روز محشر کی تکلیف سے لوگوں کو آرام و سکون اور راحت نصیب ہو۔ اور روئے ارض کے تمام انسانوں اور جنوں کے لیے آپ کو نبی بناکر مبعوث کیا گیا ہے۔
➋ مصنف رحمہ اللہ نے یہاں آخری تین امتیازات کو حذف کر دیا ہے اور انہی کے ذکر پر اکتفا کیا ہے جن کا تعلق طہارت اور نماز سے ہے۔
➌ پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں شریعت اسلامیہ نے تیمّم کی سہولت بہم پہنچا کر امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آسانی پیدا کر دی ہے۔ مٹی سے تیمّم جائز ہے، البتہ زمین سے نکلنے والی دوسری اشیاء سے تیمّم جائز ہے یا نہیں، اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ زمین سے نکلنے والی اشیاء پر مٹی، غبار ہو تو تیمّم جائز ہے ورنہ نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 109   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 432  
´مٹی سے تیمم کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں ۱؎: ایک مہینہ کی مسافت پر رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ۲؎، میرے لیے پوری روئے زمین مسجد اور پاکی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے، تو میری امت کا کوئی فرد جہاں بھی نماز کا وقت پا لے، نماز پڑھ لے، اور مجھے شفاعت (عظمیٰ) عطا کی گئی ہے، یہ چیز مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی، اور میں سارے انسانوں کی طرف (رسول بنا کر) بھیجا گیا ہوں، اور (مجھ سے پہلے) نبی خاص اپنی قوم کے لیے بھیجے جاتے تھے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 432]
432۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی سے تیمم کی پوری بحث کے لیے کتاب الغسل والتیمم کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں۔
ایک ماہ کی مسافت تک رعب سے مراد آپ کے تمام دشمنوں پر رعب ہے کہ وہ آپ سے ایک مہینے کی مسافت پر رہتے ہوئے مرعوب ہو جائیں گے، یہی خصوصیت آپ کی امت کو دی گئی ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے پابند ہوں۔
➌تمام زمین نمازگاہ بنا دی گئی ہے سوائے ان مقامات کے جن کو نجاست یا بعض دیگر وجوہ کی بنا پر مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ بعض احادیث میں صراحتاً ان کا ذکر آیا ہے۔
➍ شفاعت سے مراد شفاعت کبریٰ ہے جو تمام امتوں کے لیے آپ فرمائیں گے جسے مقام محمود سے بیان کیا گیا ہے ورنہ شفاعت تو دوسرے بھی کریں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 432   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 737  
´اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھنے کی رخصت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پوری روئے زمین ۱؎ میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے، میری امت کا کوئی بھی آدمی جہاں نماز کا وقت پائے نماز پڑھ لے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 737]
737 ۔ اردو حاشیہ: یہ روایت عام ہے۔ سابقہ روایت خاص ہے، لہٰذا اس عام کو اس سے خاص کیا جائے گا جس طرح پلید زمین پر، قبرستان اور مذبح میں نماز منع ہے، اسی طرح اونٹوں کے باڑے میں بھی منع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 737   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3122  
3122. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے لیے غنیمت کے مال حلال کردیے گئے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3122]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺکے لیے مال غنیمت کے حلال ہونے سے مراد آپ کی اُمت کے لیے حلال ہونا ہے جبکہ پہلی امتوں کے لیے مال غنیمت حلال نہیں تھا۔
مال غنیمت کا حلال ہونا رسول اللہ ﷺکی خصوصیت ہے۔
اس سے پہلے آسمان سے آگ آتی اور مال غنیمت کو جلا کر راکھ کردیتی جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہوگی۔

مال غنیمت کا حلال ہونا عام لوگوں کےلیے نہیں بلکہ ان مجاہدین کے لیے ہے جو میدان جنگ میں کفار و مشرکین سے لڑرہے ہوتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3122