صحيفه همام بن منبه
متفرق -- متفرق

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عیسی علیہ السلام سے قریبی تعلق
حدیث نمبر: 134
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا أَوْلَى النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فِي الأُولَى وَالآخِرَةِ"، قَالُوا: كَيْفَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" الأَنْبِيَاءُ إِخْوَةٌ مِنْ عَلاتٍ، وَأُمَّهَاتُهُمْ شَتَّى، وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ، فَلَيْسَ بَيْنَنَا نَبِيٌّ"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں دینا و آخرت (دونوں جہانوں) میں عیسٰی بن مریم علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! وہ کیسے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمام) انبیاء علاتی بھائی ہیں، ان کی مائیں الگ الگ ہیں، مگر دین سب کا ایک (ہی) ہے۔ پس ہم دونوں کے درمیان کوئی نبی نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحيح بخاري، كتاب أحاديث الأنبياء، باب قول الله تعالٰي ﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مَرْيَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِيًّا﴾، رقم: 3442، 3443 - صحيح مسلم، كتاب الفضائل، باب فضائل عيسيٰ عليه السلام، رقم: 2365/143، وحدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر عن همام بن منبه، قال: هذا ما حدثنا أبو هريرة رضى الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر أحاديث منها: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:.... - مسند أحمد: 107/16، رقم: 138/8231 - شرح السنة، كتاب الفضائل، باب فضائل سيد الأولين والآخرين، رقم: 3619 وقال: هذا حديث متفق على صحته.»
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4675  
´انبیاء و رسل علیہم السلام کو ایک دوسرے پر فضیلت دینا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4675]
فوائد ومسائل:
انبیا کرام کا علاقی بھائی (باپ کی طرف سے بھائی) ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی دعوت کے اصول ایک ہیں، یعنی توحید، نبوت اور بعثت قیامت، البتہ دیگر مسائل شرعیہ میں اختلاف رہا ہے۔
آپ نے خود انبیاء کو أخي (یوسف) کہہ کر یاد فرمایا، انبیا کا تذکرہ بہت محبت سے اور خوبصورت انداز سے فرمایا۔
پھر امت کے لئے کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ تفصیل دینے کا اندازمیں ان کا تذکرہ کرے یا کسی کو افضل اور کسی کو مفضول قرار دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4675