صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
11. بَابُ قِسْمَةِ الإِمَامِ مَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ، وَيَخْبَأُ لِمَنْ لَمْ يَحْضُرْهُ أَوْ غَابَ عَنْهُ:
باب: خلیفہ المسلمین کے پاس غیر لوگ جو تحائف بھیجیں ان کا بانٹ دینا اور ان میں سے جو لوگ موجود نہ ہوں ان کا حصہ چھپا کر محفوظ رکھنا۔
حدیث نمبر: 3127
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُهْدِيَتْ لَهُ أَقْبِيَةٌ مِنْ دِيبَاجٍ مُزَرَّرَةٌ بِالذَّهَبِ فَقَسَمَهَا فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَعَزَلَ مِنْهَا وَاحِدًا لِمَخْرَمَةَ بْنِ نَوْفَلٍ فَجَاءَ وَمَعَهُ ابْنُهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ، فَقَامَ عَلَى الْبَاب، فَقَالَ: ادْعُهُ لِي فَسَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْتَهُ فَأَخَذَ قَبَاءً فَتَلَقَّاهُ بِهِ وَاسْتَقْبَلَهُ بِأَزْرَارِهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْمِسْوَرِ خَبَأْتُ هَذَا لَكَ يَا أَبَا الْمِسْوَرِ خَبَأْتُ هَذَا لَكَ وَكَانَ فِي خُلُقِهِ شِدَّةٌ، وَرَوَاهُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَقَالَ: حَاتِمُ بْنُ وَرْدَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَقَدِمَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبِيَةٌ، تَابَعَهُ اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ.
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دیبا کی کچھ قبائیں تحفہ کے طور پر آئی تھیں۔ جن میں سونے کی گھنڈیاں لگی ہوئی تھیں ‘ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چند اصحاب میں تقسیم فرما دیا اور ایک قباء مخرمہ بن نوفل رضی اللہ عنہ کے لیے رکھ لی۔ پھر مخرمہ رضی اللہ عنہ آئے اور ان کے ساتھ ان کے صاحبزادے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میرا نام لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آواز سنی تو قباء لے کر باہر تشریف لائے اور اس کی گھنڈیاں ان کے سامنے کر دیں۔ پھر فرمایا: ابومسور! یہ قباء میں نے تمہارے لیے چھپا کر رکھ لی تھی۔ مخرمہ رضی اللہ عنہ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے ایوب کے واسطے سے یہ حدیث (مرسلاً ہی) روایت کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے بیان کیا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے ابن ابی ملیکہ نے ان سے مسور رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں کچھ قبائیں آئیں تھیں ‘ اس روایت کی متابعت لیث نے ابن ابی ملیکہ سے کی ہے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4028  
´قباء کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ قبائیں تقسیم کیں اور مخرمہ کو کچھ نہیں دیا تو مخرمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بیٹے! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو چنانچہ میں ان کے ساتھ چلا (جب وہاں پہنچے) تو انہوں نے مجھ سے کہا: اندر جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے لیے بلا لاؤ، تو میں نے آپ کو بلایا، آپ باہر نکلے، آپ انہیں قباؤں میں سے ایک قباء پہنے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مخرمہ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: میں نے اسے تمہارے لیے چھپا کر رکھ لیا تھا تو مخرمہ رضی اللہ عنہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت اور ان کا مزاج خوب سمجھتے تھے اور ان کی خوبی خیال رکھتے تھے۔
آج بھی اور تاقیامت تمام امت کے بالعموم اور مذہبی رہنماوں کے لئے بالخصوص اپنے رفقائے کار کے لئے بھی رسول اللہ ؐکی ذات بہترین نمونہ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4028   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3127  
3127. حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3127]
حدیث حاشیہ:
حاتم بن وردان کی روایت کو خود امام بخاری ؒنے ''باب شهادة الأعمی'' میں وصل کیا ہے۔
مخرمہ ؓ میں طبعی غصہ تھا۔
جلدی سے گرم ہوجاتے جیسے اکثر تنگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام یا بادشاہ اسلام کو کافر لوگ جو تحفے تحائف بھیجیں ان کا لینا امام کو درست ہے۔
اور اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے خود رکھے جو چاہے جس کو دے‘ اغیار کے تحائف قبول کرنا بھی اس سے ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3127   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3127  
3127. حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3127]
حدیث حاشیہ:

ریشمی جبوں کا مذکورہ ہدیہ مشرکین کی طرف سے آیاتھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال تھا۔
مال فے کی طرح اس قسم کے تحائف کی تقسیم بھی رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر موقوف تھی۔
آپ نے جسے چاہا عطا کردیا اور جسے چاہا اسے دوسروں پر ترجیح دےدی۔
لیکن اس قسم کے تحائف کاتبادلہ رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے حکمرانوں کے لیے جائز نہیں کیونکہ انھیں یہ ہدایا بطور رشوت دیئے جاتےہیں۔

حضرت مخرمہ ؓ کی طبیعت میں کچھ تیزی تھی۔
وہ جلد غصے میں آجاتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ انھیں جبے کی خوبصورتی بتارہے تھے کہ تاکہ وہ خوش خوش واپس جائیں اور تنگ مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں۔
(عمدة القاري: 457/10)

شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں:
اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہدیہ صرف ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو مجلس میں موجود ہوں دوسروں کے لیے نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 272/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3127