صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
14. بَابُ إِذَا بَعَثَ الإِمَامُ رَسُولاً فِي حَاجَةٍ أَوْ أَمَرَهُ بِالْمُقَامِ هَلْ يُسْهَمُ لَهُ:
باب: اگر امام کسی شخص کو سفارت پر بھیجے یا کسی خاص جگہ ٹھہرنے کا حکم دے تو کیا اس کا بھی حصہ (غنیمت میں) ہو گا؟
حدیث نمبر: 3130
حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَوْهَبٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: إِنَّمَا تَغَيَّبَ عُثْمَانُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ".
ہم سے موسیٰ بن اسمعٰیل نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی تھیں اور وہ بیمار تھیں۔ ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا بدر میں شریک ہونے والے کسی شخص کو ‘ اور اتنا ہی حصہ بھی ملے گا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3706  
´عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
عثمان بن عبداللہ بن موہب سے روایت ہے کہ اہل مصر میں سے ایک شخص نے بیت اللہ کا حج کیا تو اس نے کچھ لوگوں کو بیٹھے دیکھا تو پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قبیلہ قریش کے لوگ ہیں، اس نے کہا: یہ کون شیخ ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما ہیں تو وہ ان کے پاس آیا اور بولا: میں آپ سے ایک چیز پوچھ رہا ہوں آپ مجھے بتائیے، میں آپ سے اس گھر کی حرمت کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی الله عنہ احد کے دن بھاگے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں، پھر اس نے کہا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3706]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: یہ شیعی آدمی تھا جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا تھا،
اسی لیے ان تینوں باتوں پر اللہ اکبرکہا،
یعنی: جب ان میں یہ تینوں عیب ہیں تولوگ ان کی فضیلت کے کیوں قائل ہیں۔

2؎: یہ اشارہ ہے غزوئہ احد سے ان بھاگنے والوں کی طرف جو جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے،
ان میں عثمان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔

3؎: اللہ تعالیٰ نے ان کی معافی اس آیت میں نازل کی تھی ﴿وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (سورة آل عمران:155) پوری آیت اس طرح ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّهُ عَنْهُمْ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ﴾ (آل عمران:155) یعنی: تم میں سے جن لوگوں نے اس دن پیٹھ دکھائی جس دن دونوں جماعتوں کی مڈبھیڑہوئی تھی،
یہ لوگ اپنے بعض گناہوں کے باعث شیطان کے بہکاوے میں آ گئے،
لیکن یقین جانو کہ اللہ نے انہیں معاف کر دیا،
اللہ تعالیٰ ہے ہی بخشنے والا اورتحمل والا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3706   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2726  
´جو شخص مال غنیمت کی تقسیم کے بعد آئے اس کو حصہ نہ ملے گا۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے یعنی بدر کے دن اور فرمایا: بیشک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی ضرورت سے رہ گئے ہیں ۱؎ اور میں ان کی طرف سے بیعت کرتا ہوں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے حصہ مقرر کیا اور ان کے علاوہ کسی بھی غیر موجود شخص کو نہیں دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2726]
فوائد ومسائل:
بد ر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ رقیہ رضی اللہ عنہا بیمار تھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے خود انھیں حضرت رقیہ کی خدمت وتمارداری کے لئے پابند فرمایا تھا۔
اورپھر وہ اس بیماری میں وفات پاگئیں تھیں۔
اسی بنیاد پر انہیں غنیمت میں حصہ دیا گیا تھا۔
البتہ اس میں بعیت والی بات رواوی کا وہم ہے۔
کیونکہ نبی کریمﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بعیت حدیبیہ کے موقع پرلی تھی۔
یہاں راوی کو وہم ہوا ہے۔
اور اس نے اسے بدر کے واقعے میں بیان کر دیا ہے۔
اس واقعے سے ثابت ہوا کہ جو شخص مجاہدین کی کوئی ذمہ داری ادا کرنے کی وجہ سے قتال میں شریک نہ ہوا اسے بھی غنیمت میں سے حصہ دیا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2726   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3130  
3130. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا ککہ حضرت عثمان ؓ غزوہ بدر میں اس لیے حاضر نہ ہوسکے کہ ان کی بیوی جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں، ان دنوں بیمار تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: (تم ٹھہر جاؤ) تمھیں اس شخص کے برابر ثواب اور حصہ دیا جائے گا جو بدر میں شریک ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3130]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام ابو حنیفہ ؒنے اسی حدیث کے موافق حکم دیا ہے کہ جو شخص امام کے حکم سے باہر گیا ہو، یا ٹھہر گیا ہو اس کا بھی حصہ مال غنیمت میں لگایا جائے امام مالک اور امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اس کے خلاف کہتے ہیں اور اس حدیث کو حضرت عثمان ؓکے حق میں خاص قرار دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3130   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3130  
3130. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا ککہ حضرت عثمان ؓ غزوہ بدر میں اس لیے حاضر نہ ہوسکے کہ ان کی بیوی جو رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی تھیں، ان دنوں بیمار تھیں۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا تھا: (تم ٹھہر جاؤ) تمھیں اس شخص کے برابر ثواب اور حصہ دیا جائے گا جو بدر میں شریک ہوا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3130]
حدیث حاشیہ:

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی سیدہ رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیمار تھیں۔
رسول اللہ ﷺنے ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری کے لیے حضرت عثمان ؓ کو مدینہ طیبہ ٹھہرنے کا حکم دیا، اس لیے وہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ نے انھیں بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر حصہ دیا اور فرمایا:
اےاللہ! عثمان تیرے رسول کے کام میں مصروف ہے۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 46/12۔
حدیث 32704)


کچھ حضرات کا موقف ہے کہ غنیمت کے مال میں سے صرف انھی لوگوں کو حصہ ملے گا جو شریک جنگ ہوں، لیکن اس حدیث کے پیش نظر اس میں یہ ترمیم کرنی ہوگی کہ جو لوگ امام کے کہنے یا جنگی ضرورت کے پیش نظر جنگ میں شریک نہ ہوسکے ہوں، انھیں بھی غنیمت سے پور حصہ دیاجائے گا۔
واللہ أعلم۔
(عمدة القاري: 469/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3130