شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ سَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- رسول+اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم کی تلوار کا بیان

تلوار پر سونا اور چاندی لگانا
حدیث نمبر: 106
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ صُدْرَانَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا طَالِبُ بْنُ حُجَيْرٍ، عَنْ هُودٍ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: «دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَى سَيْفِهِ ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ» قَالَ طَالِبٌ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْفِضَّةِ فَقَالَ: «كَانَتْ قَبِيعَةُ السَّيْفِ فِضَّةً»
ھود بن عبداللہ بن سعید اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار پر سونا اور چاندی لگی ہوئی تھی۔ طالب (ھود کے شاگرد، طالب بن حجیر) نے کہا تو میں نے ان سے چاندی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کا دستہ چاندی کا تھا۔

تخریج الحدیث: «سنده ضعيف» :
«سنن ترمذي، ح 1690، وقال: غريب. المعجم الكبير للطبراني 345/20. 347ح 812»
اس روایت کے راوی ھود بن عبد اللہ بن سعد کی توثیق صراحتاً سوائے ابن حبان کے کسی سے ثابت نہیں، اور سنن ترمذی کے نسخوں میں اختلاف ہے۔ بعض میں ”حسن غریب“ لکھا ہوا ہے اور بعض میں صرف ”غریب“ لکھا ہوا ہے۔
سنن ترمذی کے قدیم قلمی نسخے میں صاف طور پر «هذا حديث غريب» ‏‏‏‏ لکھا ہوا ہے۔ (ص118 ب سطر4)
امام مزی وغیرہ کے نسخوں میں بھی صرف ”غريب“ ہے۔
لہٰذا ترمذی کی طرف توثیق کی نسبت مشکوک ہوئی اور ذہبی کے کلام میں تعارض ہے، لہٰذا یہ کلام ساقط ہے۔
ھود بن عبداللہ کا مجہول ہونا ہی راجح معلوم ہوتا ہے، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے۔ «والله اعلم»