صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
16. بَابُ مَا مَنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الأُسَارَى مِنْ غَيْرِ أَنْ يُخَمَّسَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان رکھ کر قیدیوں کو مفت چھوڑ دینا، اور خمس وغیرہ نہ نکالنا۔
حدیث نمبر: 3139
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِي أُسَارَى بَدْرٍ:" لَوْ كَانَ الْمُطْعِمُ بْنُ عَدِيٍّ حَيًّا، ثُمَّ كَلَّمَنِي فِي هَؤُلَاءِ النَّتْنَى لَتَرَكْتُهُمْ لَهُ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں محمد بن جبیر نے اور انہیں ان کے والد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر مطعم بن عدی (جو کفر کی حالت میں مر گئے تھے) زندہ ہوتے اور ان نجس، ناپاک لوگوں کی سفارش کرتے تو میں ان کی سفارش سے انہیں (فدیہ لیے بغیر) چھوڑ دیتا۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1107  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیران بدر کے متعلق فرمایا اگر مطعم بن عدی بقید حیات ہوتا پھر وہ میرے پاس آ کر ان مرداروں کے متعلق بات چیت کرتا تو میں ان کو اس کی خاطر چھوڑ دیتا۔ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1107»
تخریج:
«أخرجه البخاري، فرض الخمس، باب ما منّ النبي صلي الله عليه وسلم علي الأساري من غير أن يخمس، حديث:3139.»
تشریح:
1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ ثابت ہوا کہ احسان کا بدلہ دینا مسنون ہے‘ خواہ کافر کا احسان ہی کیوں نہ ہو۔
2. مسلمان کے احسان کا بدلہ تو بطریق اولیٰ دینا چاہیے۔
3. اچھے کام میں کسی کے لیے سفارش کرنا بھی جائز ہے۔
اور جائز کام کی سفارش کو قبول کرنا بھی مسنون ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1107   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2689  
´قیدی پر احسان رکھ کر بغیر فدیہ لیے مفت چھوڑ دینے کا بیان۔`
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں سے فرمایا: اگر مطعم بن عدی ۱؎ زندہ ہوتے اور ان ناپاک قیدیوں کے سلسلے میں مجھ سے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر انہیں چھوڑ دیتا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2689]
فوائد ومسائل:

مذکورہ آیت قرآنی اور احادیث سے ثابت ہوا کہ حسب مصلحت قیدی کو فدیہ لئے بغیر احسان کرتے ہوئے رہا کردینا جائز ہے۔


مطعم بن عدی کا رسول اللہ ﷺ یہ احسان تھا کہ طائف سے واپسی پر آپﷺ اس کی حمایت اور پناہ سے مکہ میں آئے تھے۔
اور اس نے آپﷺ کا دفاع بھی کیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2689   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3139  
3139. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسیران بدر کے متعلق فرمایاتھا: اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان نجس اور گندے لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش سے انھیں چھوڑ دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3139]
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ إنما المشرکونَ نجس (التوبة: 28)
کی بنا پر ان کو نجس کہا، شرک ایسی ہی نجاست ہے۔
مگر ہزار افسوس کہ آج کتنے نام نہاد مسلمان بھی اس نجاست میں آلودہ ہورہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3139   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3139  
3139. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسیران بدر کے متعلق فرمایاتھا: اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور وہ ان نجس اور گندے لوگوں کی سفارش کرتا تو میں اس کی سفارش سے انھیں چھوڑ دیتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3139]
حدیث حاشیہ:

مطعم بن عدی وہ شخص ہے جس نے قریش کے اس معاہدے کو ختم کرانے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا جو بنو ہاشم اور بنو مطلب سے بائیکاٹ کے متعلق تھا نیز اس نے رسول اللہ ﷺ کو طائف سے واپسی کے وقت اپنے ہاں پناہ دی تھی۔
رسول اللہ ﷺ اسےبدلہ دینا چاہتے تھے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام کو مال غنیمت اور خمس کے متعلق کلی اختیار ہے وہ قیدیوں کو معاوضے کے بغیر بھی رہا کر سکتا ہے۔
ان پر یہ احسان کرنا امام کی صوابدید پر موقوف ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غنیمت کی تقسیم سے قبل مجاہدین کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔
البتہ ان کی تقسیم کے بعد ان کا مالک ہونا صحیح قرارپاتا ہےاگر قبل از تقسیم مجاہدین مالک ہو جائیں تو غنیمت میں وہ لوگ جو مجاہدین میں سے کسی کے باپ یا بھائی وغیرہ ہوں تو ان کا آزاد ہونا لازم ہوگا۔
حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔
معلوم ہوا کہ مجاہدین تقسیم سے پہلے مال غنیمت کے مالک نہیں ہوتے بہر حال امام کو مال غنیمت اور خمس میں پورا پورا اختیارحاصل ہوتا ہے وہ تقسیم سے پہلے اسے اپنی صوابدید پر خرچ کر سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3139