صحيح البخاري
كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ -- کتاب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
19. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي الْمُؤَلَّفَةَ قُلُوبُهُمْ وَغَيْرَهُمْ مِنَ الْخُمُسِ وَنَحْوِهِ:
باب: تالیف قلوب کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کافروں وغیرہ نو مسلموں یا پرانے مسلمانوں کو خمس میں سے دینا۔
حدیث نمبر: 3147
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْوَالِ هَوَازِنَ مَا أَفَاءَ، فَطَفِقَ يُعْطِي رِجَالًا مِنْ قُرَيْشٍ الْمِائَةَ مِنَ الْإِبِلِ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَدَعُنَا وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، قَالَ أَنَسٌ فَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَقَالَتِهِمْ فَأَرْسَلَ إِلَى الْأَنْصَارِ فَجَمَعَهُمْ فِي قُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ وَلَمْ يَدْعُ مَعَهُمْ أَحَدًا غَيْرَهُمْ فَلَمَّا اجْتَمَعُوا جَاءَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا كَانَ حَدِيثٌ بَلَغَنِي عَنْكُمْ، قَالَ: لَهُ فُقَهَاؤُهُمْ أَمَّا ذَوُو آرَائِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمْ يَقُولُوا شَيْئًا وَأَمَّا أُنَاسٌ مِنَّا حَدِيثَةٌ أَسْنَانُهُمْ، فَقَالُوا: يَغْفِرُ اللَّهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِي قُرَيْشًا وَيَتْرُكُ الْأَنْصَارَ وَسُيُوفُنَا تَقْطُرُ مِنْ دِمَائِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي أُعْطِي رِجَالًا حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالْأَمْوَالِ وَتَرْجِعُوا إِلَى رِحَالِكُمْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَاللَّهِ مَا تَنْقَلِبُونَ بِهِ خَيْرٌ مِمَّا يَنْقَلِبُونَ بِهِ، قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَضِينَا، فَقَالَ: لَهُمْ إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً شَدِيدَةً فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْحَوْضِ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمْ نَصْبِرْ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو قبیلہ ہوازن کے اموال میں سے غنیمت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے بعض آدمیوں کو (تالیف قلب کی غرض سے) سو سو اونٹ دینے لگے تو بعض انصاری لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش کرے۔ آپ قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہمیں چھوڑ دیا۔ حالانکہ ان کا خون ابھی تک ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے۔ (قریش کے لوگوں کو حال ہی میں ہم نے مارا، ان کے شہر کو ہم ہی نے فتح کیا) انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور انہیں چمڑے کے ایک ڈیرے میں جمع کیا، ان کے سوا کسی دوسرے صحابی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں بلایا۔ جب سب انصاری لوگ جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ آپ لوگوں کے بارے میں جو بات مجھے معلوم ہوئی وہ کہاں تک صحیح ہے؟ انصار کے سمجھ دار لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں جو عقل والے ہیں، وہ تو کوئی ایسی بات زبان پر نہیں لائے ہیں، ہاں چند نوعمر لڑکے ہیں، انہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کو تو دے رہے ہیں اور ہم کو نہیں دیتے حالانکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کے خون ٹپک رہے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بعض ایسے لوگوں کو دیتا ہوں جن کا کفر کا زمانہ ابھی گزرا ہے۔ (اور ان کو دے کر ان کا دل ملاتا ہوں) کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جب دوسرے لوگ مال و دولت لے کر واپس جا رہے ہوں گے، تو تم لوگ اپنے گھروں کو رسول اللہ کو لے کر واپس جا رہے ہو گے۔ اللہ کی قسم! تمہارے ساتھ جو کچھ واپس جا رہا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو دوسرے لوگ اپنے ساتھ واپس لے جائیں گے۔ سب انصاریوں نے کہا: بیشک یا رسول اللہ! ہم اس پر راضی اور خوش ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا میرے بعد تم یہ دیکھو گے کہ تم پر دوسرے لوگوں کو مقدم کیا جائے گا، اس وقت تم صبر کرنا، (دنگا فساد نہ کرنا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملو اور اس کے رسول سے حوض کوثر پر۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، پھر ہم سے صبر نہ ہو سکا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3147  
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ قریش کے سردار اور رؤسا تھے جو حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے، آپ ﷺ نے انکی دلجوئی کے لیے ان کو بہت سامان دیا۔
ان لوگوں کے نام یہ تھے۔
ابوسفیان، معاویہ بن ابی سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، حارث بن ہشام، سہل بن عمرو، حویطب بن عبدالعزی، علاءبن حارثہ ثقفی، عیینہ بن حصین، صفوان بن امیہ، اقرع بن حابس، مالک بن عوف، ان حضرات کو رسول کریم ﷺ نے جو بھی کچھ دیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں باقی رہ گیا، مگرانصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
جس شرف کی برکت سے مدینۃ المنورہ کو وہ خاص شرف حاصل ہے جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں۔
اموال ہوازن کے متعلق جو غنیمت میں حاصل ہوا، صاحب ''لمعات '' لکھتے ہیں۔
ما أفاءاللہ في هذا الإبهام تفخیم و تکثیر لما أفاء فإن الفيئ الحاصل منهم کان عظیماً کثیراً مما لایعد ولایحصی و جاء في الروایات سنة آلاف من السبي وأربع و عشرون ألفا من الإبل وأربعۃ آلاف أوقیة من الفضة وأکثر أربعین ألف شاة الخ (حاشیۃ بخاری، کراتشی ج: 1، ص: 445)
یعنی اموال ہوازن اس قدر حاصل ہوا جس کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزار، اور چوبیس ہزار اونٹ اور چار ہزار اوقیہ چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریاں مذکور ہوئی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3147   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3147  
3147. حضرت انس ؓ ہی سے روایت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ہوازن کے مال میں سے جتنا بھی بطور غنیمت دیا تو اس میں سے آپ نے قریش کے بعض لوگوں کو سو، سو اونٹ دیے۔ اس پر انصار کے چند لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ کو معاف فرمائے آپ قریش کو اتنا دے رہے ہیں اور ہمیں نظر انداز کررہے، حالانکہ ہماری تلواروں سے ان (کافروں) کا خون ٹپک رہا ہے۔ حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے جب ان کی بات بیان کی گئی تو آپ نے انصار کو بلا کر انھیں ایک چمڑے کے خیمے میں جمع کیا لیکن ان کے ساتھ کسی اور کو نہ بلایا۔ جب وہ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: یہ کیا بات ہے جو تمہاری طرف سے مجھے پہنچی ہے؟ ان کے عقلمند لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے اہل خرد نے کچھ نہیں کہا، ہاں! چند نو خیز لڑکے ہیں انھوں نے ہی یہ کیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3147]
حدیث حاشیہ:

جن لوگوں کو رسول اللہ ﷺنے عطا کیا تھا وہ قریش کے سردار اور رئیس تھے جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی دلجوئی کے پیش نظر انھیں بہت سامال دیا۔
ان کے دلوں کو اسلام کی طرف مزید مائل کرنا مقصود تھا تاکہ وہ اسلام پر ثابت قدم رہیں۔
ایسے حالات میں انھیں زکاۃ دینا بھی جائز تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے ان حضرات کو جو کچھ دیا گیا اس کا ذکر صرف تاریخ میں با قی رہ گیا مگر انصار کو آپ نے اپنی ذات گرامی سے جو شرف بخشا وہ رہتی دنیا تک کے لیے درخشاں و تاباں ہے۔
اس شرف کی برکت سے مدینہ طیبہ کو وہ اعزاز ملا جو دنیا میں کسی بھی شہر کو نصیب نہیں ہو سکا۔

رسول اللہ ﷺ کو غزوہ حنین کےموقع پر اس قدر مال غنیمت ملا جس کا شمار مشکل ہے روایات میں قیدیوں کی تعداد چھ ہزارچوبیس ہزار اونٹ، چارہزار اوقیے چاندی اور چالیس ہزار سے زیادہ بکریوں کا ذکر ملتا ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اپنے صوابدیدی اختیارات کے مطابق مال غنیمت مؤلفہ القلوب میں تقسیم کیا اور جن لوگوں نے اس پر اعتراض کیا وہ کامل الایمان نہیں تھے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3147