شمائل ترمذي
بَابُ مَا جَاءَ فِي خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -- رسول+اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم کے اخلاق کا بیان

برے آدمی سے بھی اچھے انداز سے پیش آنا
حدیث نمبر: 343
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَى أَشَرِّ الْقَوْمِ يَتَأَلَّفُهُمْ بِذَلِكَ فَكَانَ يُقْبِلُ بِوَجْهِهِ وَحَدِيثِهِ عَلَيَّ، حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي خَيْرُ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ أَبُو بَكْرٍ؟ قَالَ: «أَبُو بَكْرٍ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُمَرُ؟ فَقَالَ: «عُمَرُ» ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا خَيْرٌ أَوْ عُثْمَانُ؟ قَالَ: «عُثْمَانُ» ، فَلَمَّا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَدَقَنِي فَلَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ سَأَلْتُهُ
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قوم کے بدترین شخص کی طرف بھی اپنے پورے روئے انور کے ساتھ اور نرم گفتگو کے ساتھ متوجہ ہوتے تاکہ وہ اس کی وجہ سے الفت و رغبت حاصل کرے، اسی طرح پوری توجہ اور محبت بھری گفتگو میرے ساتھ بھی فرماتے یہاں تک کہ مجھے یہ یقین ہو گیا کہ میں قوم کا بہترین فرد ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں بہتر ہوں یا ابوبکر؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ابوبکر، پھر میں نے عرض کہا کہ میں بہتر ہوں یا عمر؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عمر، پھر میں نے عرض کیا کہ آیا میں بہتر ہوں یا عثمان؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان، جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہایت ہی سچا جواب مرحمت فرمایا: البتہ مجھے پسند تھا کہ اے کاش میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ پوچھی ہوتی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنده ضعيف» ‏‏‏‏ :
اس کے راوی محمد بن اسحاق بن یسار جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث تھے، لیکن مدلس بھی تھے اور یہ سند عن سے ہے، لہٰذا ضعیف ہے۔
حافظ ہیثمی نے مجمع الزوائد (15/9) میں اسے بحوالہ طبرانی نقل کر کے حسن قرار دیا، لیکن مجھے طبرانی کی سند معلوم نہیں ہو سکی۔ واللہ اعلم