سلسله احاديث صحيحه
الايمان والتوحيد والدين والقدر -- ایمان توحید، دین اور تقدیر کا بیان

شیطان وحی کی باتیں کیسے اچک لیتے ہیں؟
حدیث نمبر: 86
- (إنّها لايُرمى بها لموت أحدٍ ولا لحياته؛ ولكن ربّنا تبارك وتعالى اسمه إذا قضى أمراً؛ سبّح حملت العرش، ثم سبّح أهل السماء الذين يلونهم،. حتى يبلغ التسبيح أهل هذه السماء الدنيا، ثم قال الذين يلون حملة العرش لحملة العرش: ماذا قال ربكم؟ فيخبرونهم ماذا قال، قال: فيستخبر بعض أهل السماوات بعضاً، حتى يبلغ الخبر هذه السماء الد نيا، فتخطف الجن السمع، فيقذفونّ إلى أوليائهم، ويرمون به، فما جاؤوا به على وجهه؛ فهو حق، ولكنّهم يقرفون فيه ويزيدون).
علی بن حسین سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: مجھے ایک انصار صحابی نے بیان کیا کہ وہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، ایک سیارہ ٹوٹ کر گر پڑا اور اس کی وجہ سے روشنی پھیل گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: تم جاہلیت میں اس قسم کے سیارے کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: (حقیقی صورت حال تو) اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ ہم یوں کہا کرتے تھے: آج رات کوئی عظیم آدمی پیدا ہوا ہے یا فوت ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کی موت و حیات کی وجہ سے سیارے نہیں ٹوٹتے۔ (درحقیقت) جب اللہ تبارک و تعالیٰ کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو حاملین عرش اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں، پھر اس سے نچلے والے آسمان کے فرشتے اللہ کی تسبیح شروع کرتے ہیں، حتیٰ کہ آسمان دنیا والے فرشتے بھی تسبیح میں مصروف ہو جاتے ہیں پھر (ساتویں) آسمان والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں: تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ انہیں جواب دیتے ہیں کہ یہ کچھ کہا، اسی طرح ایک آسمان والے دوسرے سے پوچھتے ہیں اور بات چلتے چلتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے، (جب آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی بات ہوتی ہے تو اس کے نیچے تک پہنچ جانے والے) جن بات اچک کر اپنے (شیطانی) اولیا تک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں، (ان کو جلانے کے لیے) ان پر سیارے گرائے جاتے ہیں۔ (بسا اوقات جل جاتے ہیں اور بعض اوقات نکل آتے ہیں) وہ جو کچھ وہاں سے سن کر آتے ہیں وہ تو حق ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ کئی جھوٹ گھڑتے ہیں اور اپنی طرف سے اضافے کرتے ہیں۔